سرچ کریں

Displaying 1 to 10 out of 658 results

2

مذہبی آزادی کا نظریہ شریعت و عقل کی روشنی میں

سوال: زید بین المذاہب ہم آہنگی کے تحت مندرجہ ذیل نظریات رکھتا ہے: ٭ہر انسان کو آزادی فکر، آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا پورا حق ہے۔ اس حق میں مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے اور پبلک میں یا نجی طور پر،تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل جُل کر عقیدے کی تبلیغ ، عمل، عبادت اور مذہبی رسمیں پوری کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔ ٭ اپنے ذاتی عقائد رکھنا، اپنا ذاتی مذہب رکھنا، کوئی بھی مذہب نہ رکھنا ، یا مذہب کو تبدیل کرلینا ہم سب کا حق ہے۔ ٭وہ مذہبی، غیر مذہبی اور لا مذہبی تمام اعتقادات کی حفاظت کو ضروری سمجھتا ہے،نیز اُن لوگوں کی حفاظت کو بھی ضروری جانتاہے، جو کسی قسم کا یقین یا عقیدہ نہیں رکھتے۔ ٭ وہ سوچ و فکر ،فہم واِدراک ، مذہب اور عقیدے کی آزادی کو تحفظ فراہم کرنے کا اور اس بات کو یقینی بنانے کا عہد کرچکا ہے کہ ہر انسان کسی بھی قسم کے جُرمانے /ہرجانے یا ظلم کے خوف سے آزاد ہو کر اپنے عقائد کو تبدیل کر سکےیا اگر چاہے تو کوئی عقیدہ نہ رکھے (یعنی دہریہ/ملحد ہوجائے)۔ ٭ وہ عہد کرچکاہےکہ 'مذہب و عقیدے کے انتخاب کی آزادی ' کا دفاع کرنے والوں کی حمایت کے لیے بھرپور آواز اٹھائے گا، مذہب اور عقیدے کے حوالے سےبا اثرافراد/رہنماؤں کو اپنے ساتھ شامل کرےگا، مستقبل کی باگ ڈور سنبھالنے والوں بالخصوص نوجوانوں کو (مذہب و عقیدے کے انتخاب کی آزادی سے) متاثر کرے گا اور اس پر منظم عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے عالمی سطح پر کئی مختلف اتحاد/شراکت داریاں قائم کرے گا۔ ٭ وہ عہد کرچکا ہے کہ ایسی ہر قسم کی حق تلفی یا ظلم کے خلاف جنگ کرےگا جو نوجوانوں کو ' مذہب و عقیدے کے انتخاب کی آزادی ' سے روکتا ہو۔ ٭ وہ عہد کرچکا ہے کہ آن لائن بھی انسانی حقوق کی حفاظت کرے گا اور 'مذہب و عقیدے کے انتخاب کی آزادی ' بھی اس میں شامل ہوگی تاکہ ہر فرد وہ مذہب منتخب کر سکےجو آن لائن (انٹرنیٹ کی) دنیا پیش کرتی ہے اور جس کو فرد اپنے لیے مثبت و فائدہ مند جانتا ہو۔ زید کے ان نظریات پر اسلام کیا کہتا ہے؟

2
7

پاکستان سیکولراِزم کی بنیاد پر بنا تھا؟

سوال: سیکولر لوگ کہتے ہیں ” پاکستان اسلامی جمہوریہ کی بنیاد پر نہیں بنایا گیا بلکہ سیکولرازم کی بنیاد پر بنایا گیا تھا لیکن بعد میں مولویوں نے اس پر اسلامی نام پر قبضہ کرلیا ۔“کیا یہ بات درست ہے؟اپنی دلیل میں وہ کہتے ہیں کہ 11اپریل 1946 کو مسلم لیگ کنونشن دہلی میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نےکہا : ’’ہم کس چیز کےلئے لڑ رہے ہیں ۔ہمارا مقصد تھیوکریسی نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں تھیوکریٹک اسٹیٹ چاہیے ۔ مذہب ہمیں عزیز ہے ، لیکن اور چیزیں بھی ہیں جو زندگی کے لیے بے حد ضروری ہیں ۔مثلاً ہماری معاشرتی زندگی ، ہماری معاشی زندگی اور بغیر سیاسی اقتدار کے آپ اپنے عقیدے یا معاشی زندگی کی حفاظت کیسے کرسکیں گے؟“ 1946 میں رائٹرز کے نمائندے ڈول کیمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے قائد اعظم کا کہنا تھا:” نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں اختیارات کا سرچشمہ عوام ہوگی۔نئی ریاست کے ہر شہری مذہب ،ذات یا عقیدے کی بنا کسی امتیاز کے یکساں حقوق ہوں گے ۔“

7