سرچ کریں

Displaying 541 to 550 out of 2395 results

544

جس کا ذہنی توازن درست نہ ہو ، اس کی پاکی و ناپاکی کا حکم ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا بارہ سال کا نابالغ بیٹا ہے ، جس کا دماغی توازن بالکل درست نہیں ، کسی بھی چیز کو نہیں سمجھتا ، کوئی تدبیرو کام نہیں کرسکتا ، نجاست وطہارت کی بھی کوئی تمییز نہیں رکھتا ، ڈائپر نہ لگا ہو، تو کپڑوں میں نجاست کر دیتا ہے اور کبھی اپنا نجاست والا ہاتھ اپنے منہ میں ڈال لیتا ہے ،خود کھانا بھی نہیں کھا سکتا، اگر کوئی پاس کھانا کھا رہا ہو اور اسے بھوک لگی ہو تو رونے لگ جاتا ہے کھانا نہیں مانگتا،خود ہی اندازہ کرنا پڑتا ہے کہ اس کو کھانا چاہیے ، خاموش بیٹھا رہتا ہے کوئی کلام نہیں کرتا،کبھی بھی اس کو افاقہ نہیں ہوتا، بچپن سے ہی اس کی یہی حالت ہے ،البتہ بلاوجہ مارتا اور گالیاں نہیں دیتا، لیکن ہاتھ نہیں پکڑنے دیتا کہ کوئی ہاتھ پکڑے تو جھٹکا دے کر چھڑا لیتا ہے ۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اب وہ بالغ ہونے کے قریب ہو گیا ہے، کیا اس پر پاکی حاصل کرنا واجب ہوگا، جبکہ وہ خود استنجا نہیں کر سکتا ؟ کیا اب اس کو استنجا کروانا میرے(والدہ کے) لیے جائز ہوگا؟جبکہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہوتا جو یہ کام کر سکے ؟ ایسی صورت میں اس کے کپڑےو ڈائپر بدلنے کی کیا مجھے اجازت ہوگی؟

544
549

تین طلاقیں دینے سے تین ہی واقع ہوتی ہیں

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ تین طلاقیں جب بھی دی جائیں تین ہی ہوتی ہیں ،چاہے ایک مجلس میں ہوں یا الگ الگ مجلس میں۔مگر کچھ لوگوں نے یہ دو احادیث ہمیں بتائی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں ایک ہوتی ہے ،اس کے بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں کہ ان احادیث کا کیا جواب ہے؟ پہلی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجہ کو تین طلاقیں دی تھیں تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان تین طلاقوں کو ایک شمارکیا اوران کی زوجہ کو لوٹا دیا تھا،اور زوجہ دوبارہ ان کے پاس چلی گئی تھیں۔ دوسری حدیث مسلم شریف کی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت کے پہلے دو سال تک تین طلاقیں ایک ہوتی تھی۔

549
550

چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے بیچنا کیسا؟

سوال: (1)مارکیٹ میں خرید و فروخت کا ایک طریقہ یہ پایا جاتا ہے کہ کوئی گاہک دکان پر آ کر کسی چیز کو خریدنا چاہتا ہے اور دکاندار کے پاس وہ مال ابھی موجود نہیں ہوتا، تو وہ گاہک کو مال کا نمونہ (Sample)دکھا کر اسے مخصوص مقدار میں وہ مال بیچ دیتا ہے اور پھر کسی دوسرے دکاندار کہ جس کے پاس وہ چیز موجود ہوتی ہے، اُسے کہہ دیتا ہے کہ میرے فلاں گاہک کو وہ چیز اتنی مقدار میں دے دو اور جب گاہک وہ چیز لے لیتا ہے ،تو پہلا دکاندار اس چیز کا ریٹ وغیرہ معلوم کر کے دوسرے دکاندار کو رقم کی ادائیگی کر دیتا ہے، یعنی پہلا دکاندار چیز خریدنے سے پہلے ہی گاہک کو بیچ چکا ہوتا ہے، کیا یہ طریقہ شرعا درست ہے؟ (2)اور اگر اس طریقے سے چیز کو بیچ دیا جائے کہ پہلا دکاندار دوسرے سے کوئی چیز خرید لے اور اس کے بعد اپنے گاہک کو بیچے اور دوسرے دکاندار کو کہہ دے کہ میں نے آپ سے جو چیز خریدی ہے، وہ آگے بیچ دی ہے، لہذا آپ ڈائریکٹ میرے گاہک کو ہی وہ چیز ڈیلیور کر دیں، تو ایسا کرنا کیسا؟ (3)اگر یہ طریقے درست نہیں، تو کیا انداز اختیار کیا جا سکتا ہے، جو شرعاً درست ہو؟

550