مجیب:ابوالفیضان عرفان احمدمدنی
فتوی نمبر:WAT-1201
تاریخ اجراء:28ربیع الاول1444ھ/25اکتوبر2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلے کے بارے
میں کہ کوئی حلال جانور ذبح کرتے وقت اگر گردن ساری کٹ جائے
، تو کیا اس جانور کا گوشت کھا سکتے ہیں یا
نہیں ؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی
میں جواب عنایت فرمائیں ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام
مغز تک پہنچ جائے یا سر کٹ کر جدا ہو جائے ، یہ مکروہ وممنوع ہے کہ جانورکوبلاوجہ ایذادیناہے لیکن جانور حلال ہے ،لہذااسے کھاسکتے
ہیں کہ یہ کراہت اس کے فعل میں ہے ،اس کی وجہ سے جانورکے
گوشت میں کوئی کراہت نہیں۔
ہدایہ میں ہے” ومن بلغ بالسكين النخاع أو قطع الرأس كره له ذلك
وتؤكل ذبيحته" ۔۔۔وهذا لأن في جميع ذلك وفي قطع الرأس زيادة
تعذيب الحيوان بلا فائدة وهو منهي عنه.والحاصل: أن ما فيه زيادة إيلام لا يحتاج
إليه في الذكاة مكروه“ترجمہ:جانور کو ذبح کرتے ہوئے چھری حرام مغز تک
پہنچا دی یا سر جدا کر دیا تو یہ مکروہ ہے ،البتہ
ذبیحہ کھایا جا ئے گا،اور مذکورہ فعل میں کراہت اس وجہ سے ہے کہ
چھری حرام مغز تک پہنچانے یا سر جدا کرنے میں حیوان کو
بلا وجہ زیادہ تکلیف
دینا ہے جو کہ ممنوع ہے ،حاصل کلام یہ ہے کہ ذبح میں ہر وہ غیر ضروری کام جس میں
زیادہ تکلیف ہو ،مکروہ ہے۔ (ہدایہ،کتاب الذبائح،ج
4،ص 350، دار احياء التراث العربي ، بيروت)
بہار شریعت میں ہے” اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک
پہنچ جائے یا سر کٹ کر جدا ہو جائے مکروہ ہے مگر وہ ذبیحہ کھایا
جائے گا یعنی کراہت اوس فعل میں ہے نہ کہ ذبیحہ
میں۔"(بہار شریعت،ج 3،حصہ 15،ص 315،مکتبۃ
المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا جنگلی گدھاحلال ہے؟
مچھلی کے شکار کے لیے زندہ کیڑے کانٹے میں چڑھانا کیسا؟
چمگادڑکے متعلق احکام
سیہہ اور مور حلال ہے یا حرام؟
Octopus کھانا جائز ہے یا نہیں؟
کیا جھینگا کھانا حلال ہے؟
ایسا گوشت کھانا کیسا جو مسلمان کی نظر سے اوجھل ہوا ہو؟
جانور ذَبح کرتے وقت تکبیر بھول جائے تو