مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12948
تاریخ اجراء: 22 محرم الحرام1445 ھ/10اگست
2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر
بچھڑا کسی بیماری کے سبب مرنے کے قریب ہوجائے، اسے ذبح کیا
جائے تو اس میں زندہ ہونے کی کوئی علامت نہ ہو سوائے اس کے کہ
اُس کا خون بہہ گیا ہو؟ تو کیا اس صورت میں وہ بچھڑا حلال ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جانور کے حلال ہونے کے لیے ذبح کے وقت اس کا زندہ
ہونا ضروری ہے ورنہ وہ جانور حلال نہیں ہوگا۔ البتہ اگر کوئی
جانور قریب المرگ ہو ، ذبح کے وقت
اُس کے زندہ ہونے کا یقینی طور پر علم نہ ہو تو علامات کے ذریعے ذبح کے وقت زندہ ہونے کا
تعین کیا جائے گا ۔ کچھ علامات یہ ہیں: (1) ذبح کے
وقت جانور کا منہ بند کرلینا۔ (2) ذبح کے وقت جانور کا آنکھیں بند
کرلینا۔ (3) ذبح کے وقت جانور
کے بال کھڑے ہوجانا۔ (4) ذبح کے وقت
جانور کا پاؤں سمیٹ لینا وغیرہ، لہذا ان علامات کے ذریعے اس بات کی
پہچان ہوگی کہ ذبح کے وقت جانور زندہ تھا۔ انہی علامتوں میں سے ایک علامت فقہائے کرام نے
یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ ذبح کے وقت اُس جانور کا خون ایسے نکلے جیسے زندہ جانور کے
ذبح کے وقت خون نکلتا ہےمثلاً پُھوارے
کی طرح خون نکلے یا کافی مقدار میں خون نکلے کہ اس انداز
سے خون کا نکلنا زندگی کی علامت ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت
میں اگر اُس بچھڑے میں سے اُسی طرح خون بہا
جیسے زندہ جانور کے ذبح کے وقت خون نکلتا ہے تو وہ بچھڑا حلال ہو گا۔
ذبح کے وقت زندہ جانور کی طرح خون نکلے تو جانور حلال
ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری، بدائع الصنائع،
بحر الرائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“ أما خروج
الدم بعد الذبح فيما لا يحل إلا بالذبح فهل هو من شرائط الحل فلا رواية فيه عن
أصحابنا ، وذكر في بعض الفتاوى أنه لا بد من أحد شيئين إما التحرك ، وإما خروج
الدم ، فإن لم يوجد لا تحل ، كذا في البدائع۔ وإن ذبح شاة أو بقرة فخرج
منها دم ، ولم تتحرك وخروجه مثل ما يخرج من الحي أكلت عند أبي حنيفة رحمه الله
تعالیٰ وبه نأخذ۔ “ ترجمہ: ”ایسے جانور جو ذبح کے بعد
ہی حلال ہوتے ہیں ان جانوروں کا ذبح کے بعد خون نکلنا حلال ہونے
کی شرائط میں سے ہے؟ اس
میں ہمارے اصحاب سے کوئی روایت منقول نہیں۔ البتہ
بعض فتاوٰی میں یہ مذکور ہے کہ دو چیزوں میں
سے ایک چیز ضروری ہے یا تو جانور حرکت کرے یا پھر
خون نکلے پس اگر ان میں سے کوئی ایک شے بھی نہ پائی
گئی تو وہ جانور حلال نہ ہوگا جیسا کہ بدائع میں مذکور
ہے۔ اگر بکری یا گائے ذبح کی اور اس کا خون نکلا مگر اس
نے حرکت نہ کی اور وہ خون ایسا تھا جیسا کہ زندہ جانور سے نکلتا ہے تو امام اعظم
علیہ الرحمہ کے نزدیک اسے کھایا جائے گا ہم اسی قول پر عمل کو اختیار کرتے
ہیں ۔ “(الفتاوى الهندية، کتاب الصید و
الذبائح، ج 05، ص 286، دار الفکر، بیروت)
جوہرۃ
النیرۃ میں ہے:”إن ذبح شاة أو بقرة وتحركت وخرج منها الدم أكلت وإن لم تتحرك ولم
يخرج منها الدم لم تؤكل وإن تحركت ولم يخرج منها الدم أكلت وإن خرج منها الدم
ولم تتحرك وخروجه مثل ما يخرج من الحي أكلت عند أبي حنيفة وبه نأخذ كذا في
الينابيع۔“ یعنی اگر بکری یا گائے ذبح
کی اور اس نے ذبح کے وقت حرکت بھی کی اور اُس کے خون بھی
نکلا تو اسے کھایا جائے ۔ اگر
جانور نے حرکت نہ کی اور نہ ہی اس کا خون نکلا تو نہیں
کھایا جائے گا۔ اگر اس نے حرکت تو کی مگر اس کا خون نہ نکلا تو
اسے کھایا جائے گا اور اگر اس کا خون نکلا مگر اس نے حرکت نہ کی اور
وہ خون ایسا تھا جیسا کہ زندہ جانور سے نکلتا ہے تو امام اعظم
علیہ الرحمہ کے نزدیک اسے کھایا جائے گا، ہم اسی قول کو اختیار کرتے
ہیں جیسا کہ ینابیع میں مذکور ہے۔(الجوهرة النيرة، کتاب الصید و الذبائح، ج 02،
ص 183، مطبوعہ المطبعة الخيرية)
بہار شریعت
میں ہے:” جس جانور کو ذبح کیا جائے وہ وقت ذبح زندہ ہو، اگرچہ اس کی حیات کا تھوڑاہی
حصہ باقی رہ گیا ہو۔ ذبح کے بعد خون نکلنا یا جانور
میں حرکت پیدا ہونا یوں ضروری ہے کہ اِس سے اُس کا زندہ
ہونا معلوم ہوتا ہے۔ بکری ذبح کی اور خون نکلا
مگر اُس میں حرکت پیدا نہ ہوئی اگر وہ ایسا خون ہے
جیسے زندہ جانور میں ہوتا ہے ، حلال ہے۔ بیمار
بکری ذبح کی، صرف اوس کے مونھ
کو حرکت ہوئی اور اگر وہ حرکت یہ ہے کہ مونھ کھول دیا تو حرام
ہے اور بند کر لیا تو حلال ہے اور آنکھیں کھول دیں تو حرام اور
بند کر لیں تو حلال اور پاؤں پھیلا دیے تو حرام اور سمیٹ
لیے تو حلال اور بال کھڑے نہ ہوئے تو حرام اور کھڑے ہوگئے تو حلال
یعنی اگر صحیح طور پر اوس کے زندہ ہونے کا علم نہ ہو تو ان
علامتوں سے کام لیا جائے اور اگر زندہ ہونا یقینا معلوم ہے تو
ان چیزوں کا خیال نہیں کیا جائے گا ، بہرحال جانور حلال
سمجھا جائے گا۔ “(بہار
شریعت،ج03،ص 314،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فقیہ اعظم
محمد نور اللہ نعیمی
علیہ الرحمہ سے سوال ہوا :”ایک جانور بوجہ بیماری قریب المرگ
ہے، اس کا مالک اسے ذبح کرنے کے لیے تیار ہے لیکن وہ جانور
بالکل ساقط ہوگیا اور کوئی حرکت نہیں کرتا، چند منٹ بعد اس
جانور نے دوبارہ حرکت شروع کی تو مالک نے اسے فوراً ذبح کردیا، ذبح
کے بعد وہ جانور حرکت تو نہیں کرتا لیکن اس کا خون پھوارے کی
طرح نکلتا ہے، آپ سے استدعا ہے کہ از روئے شریعت مسئلہ مذکور کے متعلق
بتائیں کہ مذکور جانور حلال ہے یا حرام؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں
ارشادفرماتے ہیں: ”ایسی صورت میں اگر خون اس طرح
نکلے جیسے زندہ جانور کے ذبح کرنے کے وقت نکلتا ہے تو حلال ہے ۔“(فتاوٰی نوریہ ، ج
03، ص 392، دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور ضلع اوکاڑہ)
فتاوٰی
یورپ میں ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے: ”آہنی
سلاخ کے کاری ضرب لگنے سے بچھڑے کا بے حس و حرکت ہوجانا پھر زبان کا باہر
آجانا، پھر اسے اٹھانے لٹکانے پر بھی حرکت میں نہ آنا اس کی موت
کی علامتیں ہیں۔ لیکن وقتِ ذبح کا فی
مقدار میں خون نکلنا اس کی حیات کی علامت ہے۔“(فتاوٰی یورپ، ص
479، مکتبہ جامِ نور، دہلی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا جنگلی گدھاحلال ہے؟
مچھلی کے شکار کے لیے زندہ کیڑے کانٹے میں چڑھانا کیسا؟
چمگادڑکے متعلق احکام
سیہہ اور مور حلال ہے یا حرام؟
Octopus کھانا جائز ہے یا نہیں؟
کیا جھینگا کھانا حلال ہے؟
ایسا گوشت کھانا کیسا جو مسلمان کی نظر سے اوجھل ہوا ہو؟
جانور ذَبح کرتے وقت تکبیر بھول جائے تو