Musalman Ke Zibah Ke Karne Ke Baad Kafir Churi Chalaye To Zibah Ka Hukum

مسلمان کے ذبح کرنے کے بعد کافر چھری چلائے تو ذبح کا حکم

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2715

تاریخ اجراء:09ذوالقعدۃ الحرام1445 ھ/18مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہمارے ملک  میں غیر مسلم قصاب ہوتے ہیں،ایسی صورت میں  اگر کسی جانور کو مسلمان ذبح کرے اور اس جانور میں ابھی جان  باقی ہونے کی حالت میں ہی غیر مسلم قصاب بھی  چھری پھیر کر  گلے سے کچھ کاٹے،تو کیا اس طرح   غیر مسلم کے چھری پھیرنے سے جانور حلال رہے گا یا حرام ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگرمسلمان نے جانور کو ذبح کرتے ہوئے کم از کم  تین رگیں کاٹ دی ہوں یا چار رگوں میں سے ہر ایک کا اکثر حصہ کاٹ دیا ہو تو مسلمان کے اس ذبح سے ہی وہ جانور حلال ہوجائے گا،لہذااس کے بعد غیر مسلم قصاب  کے  جانور پر چھری پھیرنے سے   جانور کے حلال ہونے پر کچھ فرق نہیں پڑے گاکہ جانور تو  مسلمان کے ذبح سے  ہی حلال ہوچکا۔ البتہ اگر مسلمان  نے  ذبح میں چار رگوں میں سے تین رگیں   نہ کاٹی ہوں  یا   چاروں میں سے ہر ایک کا اکثر حصہ نہ کاٹا  ہو،اور اس کے بعد غیر مسلم  قصاب  نے جانور پر  چھری پھیر کر رگیں کاٹی ہوں تو ایسی صورت میں وہ جانو ر حرام ہوجائے گا۔

   جانور کو ذبح کرنے کیلئے،ذابح  کا مسلمان یا  کتابی ہونا شرط ہے،کافر غیر کتابی کا ذبیحہ حرام ہے،چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’شرائط الذكاة:۔۔۔منها أن يكون مسلما أو كتابيا فلا تؤكل ذبيحة أهل الشرك والمرتد‘‘ ملتقطاً۔ ترجمہ: ذبح کی چند شرائط  ہیں،ان میں ایک یہ ہے کہ ذبح کرنے والا مسلمان یا کتابی ہو،لہذا مشرک اور مرتد کا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔ (الفتاوی الھندیۃ،جلد5،کتاب الذبائح،صفحہ352،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’ جن، مرتد، مشرک، مجوسی، مجنون، ناسمجھ اور اس شخص کا جو قصدا ًتکبیر ترک کرے ذبیحہ حرام و مردار ہے۔اور ان کے غیر کا حلال جبکہ رگیں ٹھیک کٹ جائیں۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد20،صفحہ242، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   ذبح کیلئے چار یا کم از کم تین رگیں کٹ جانا ضروری ہے،چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’والعروق التي تقطع في الذكاة أربعة۔۔۔ فإن قطع كل الأربعة حلت الذبيحة، وإن قطع أكثرها فكذلك عند أبي حنيفة  رحمه الله تعالى ۔۔۔لما أن للأكثر حكم الكل، كذا في المضمرات‘‘ملتقطاً۔ترجمہ:اور ذبح میں  چار رگیں کاٹی جاتی ہیں،اگر چاروں رگیں کاٹ دیں تو جانور حلال ہوجائے گا،اور اگر اکثر(یعنی کوئی سی تین)رگیں کاٹ دیں تو بھی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جانور حلال ہوجائے گا،کیونکہ اکثر کیلئے کل کا حکم ہوتا ہے۔  یونہی مضمرات میں ہے۔     (الفتاوی الھندیۃ،جلد5،کتاب الذبائح،صفحہ354،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:’’ذبح کی چار رگوں میں سے تین کا کٹ جانا کافی ہے یعنی اس صورت میں بھی جانور حلال ہو جائے گا کہ اکثر کے لیے وہی حکم ہے جو کل کے لیے ہے اور اگر چاروں میں سے ہر ایک کا اکثر حصہ کٹ جائے گا جب بھی حلال ہو جائے گا اور اگر آدھی آدھی ہر رگ کٹ گئی اور آدھی باقی ہے تو حلال نہیں‘‘۔ (بھار شریعت،جلد3، حصہ15،صفحہ313،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   مسلمان کے صحیح سے  ذبح کرنے   بعد، غیر مسلم نے چھری پھیری  تو  جانور  حرام نہیں ہوگا،چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’وفي التجريد المسلم إذا ذبح فأمر المجوسي بالسكين بعد الذبح لم يحرم، ولو ذبح المجوسي وأمر المسلم بعده لم يحل، كذا في التتارخانية‘‘ترجمہ:اور تجرید میں ہے کہ مسلمان نے ذبح کیا،پھر مجوسی نے اس پر چھری پھیری تو جانور حرام نہ ہوگا،اور اگر مجوسی نے ذبح کیااور اس کے بعد مسلمان نے چھری پھیری  تو جانور حلال نہ ہوگا،یونہی تتارخانیہ میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ،جلد5،کتاب الذبائح،صفحہ354،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:’’مسلمان نے جانور ذبح کر دیا اس کے بعد مشرک نے اس پر چھری پھیری تو جانور حرام نہ ہوا کہ ذبح توپہلے ہی ہوچکا اور اگر مشرک نے ذبح کر ڈالا اس کے بعد مسلم نے چھری پھیری تو حرام ہی ہے اس کے چھری پھیرنے سے حلال نہ ہوگا۔‘‘ (بھار شریعت،جلد3،حصہ15،صفحہ316،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم