Janwar Ko Zibah Karte Waqt Qibla Rukh Karne Ka Hukum

جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کرنے کا حکم

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2726

تاریخ اجراء: 12ذوالقعدۃ الحرام1445 ھ/21مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کرنے کا کیا حکم ہے؟اگر جانور کو قبلہ رخ ذبح نہ کیا  توکیا  جانور حلال ہوجائے گا اور  اس کی قربانی ہوجائے گی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جانور کو ذبح کرتے وقت    جانور  کا اور  خود  ذبح کرنے والے  شخص کا قبلہ رُخ ہونا    سنتِ متوارثہ ہے  یعنی  ایسا طریقہ ہے جو   نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ مبارکہ سے اب تک چلا آ رہا ہے۔سنتِ متوارثہ     پر عمل کرنے کی شرعاً    تاکید    ہوتی ہے اور بلا ضرورت  اس کو ترک کرنے سے بچنے  کا حکم    ہوتاہے، لہذا   جہاں تک ممکن ہو جانور کو ذبح کرتے وقت اِس سنتِ متوارثہ   کا   ضرور لحاظ رکھا  جائے ۔  اگر   وقتِ ذبح  جانور  اور  ذبح کرنے والے  شخص  کا،یا دونوں میں سے کسی ایک کا     رُخ قبلہ کی جانب  نہ ہو تو  چاہے یہ عذر کی وجہ سے ہو یا    بغیر عذ ر،بہر صورت   جانور کی قربانی   ہوجائے گی اور  اُسے کھانا بھی حلال ہوگا ،البتہ بغیر عذر  کے جانور یا    ذبح کرنے والے  شخص  کاقبلہ رُخ  نہ ہونا ،خلافِ سنت   اورمکروہ ہے ،ہاں اگر عذر  کی وجہ سے ہو  تو   کوئی کراہت نہیں ۔

   ذبح کرتے وقت قبلہ رخ ہونا سنت متوراثہ ہے اور  بغیر عذر قبلہ کی طرف رخ   نہ کرنا  مکروہ ہے،چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے: ’’(و)کرہ (ترک التوجہ الی  القبلۃ) لمخالفتہ السنۃ‘‘ترجمہ:اور قبلہ کی طرف رخ نہ کرنا،سنت کی مخالفت کی وجہ سے مکروہ ہے۔

   اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں فرماتے ہیں:’’أی السنۃ المؤکدۃ؛لانہ توارث الناس  فیکرہ ترکہ بلا عذر‘‘ترجمہ:یعنی سنت مؤکدہ کی مخالفت کی وجہ سے،کیونکہ یہ لوگوں میں رائج  عمل ہے،لہذا    بغیر عذر اس کا   ترک مکروہ  ہے۔(تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار،جلد9،کتاب الاضحیۃ،صفحہ495،دارالمعرفۃ،بیروت)

   قبلہ رخ ذبح نہ کیا  تو یہ عمل مکروہ ہوگا ،مگر جانور کو کھانا  حلال ہی  ہوگا،چنانچہ تبیین الحقائق مع حاشیۃ الشلبی میں ہے:’’(لو ذبحها متوجهة لغير القبلة يكره وتؤكل؛ لأن السنة في الذبح أن يستقبل بها القبلة هكذا روي عن ابن عمر  رضي اللہ عنهما  أن النبي صلى اللہ عليه وسلم  استقبل في أضحيته القبلة لما أراد ذبحها)قال في الأصل أرأيت الرجل يذبح ويسمي ويوجه ذبيحته إلى غير القبلة متعمدا أو غير متعمد قال لا بأس بأكلها۔ قال خواهر زاده في شرح المبسوط أما الحل فلأن الإباحة شرعا متعلقة بقطع الأوداج والتسمية وقد وجد وتوجيه القبلة سنة مؤكدة لأنه توارثه الناس وترك السنة لا يوجب الحرمة، ولكن يكره تركه من غير عذر‘‘ترجمہ:اگر جانور کو قبلہ کے علاوہ کسی اور طرف رخ کرکے ذبح کیا تو  یہ مکروہ ہے،اور جانور کھایا جائے گا،کیونکہ ذبح میں سنت قبلہ رخ  ہونا ہے،اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا ارادہ فرماتے تو اس کا رخ قبلہ کی طرف کرتے ۔اصل میں فرمایا کہ اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جو جانور  کو بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے  اور اپنے جانورکو جان بوجھ کر  یا بغیر ارادے کے قبلہ رخ  نہ کرے؟تو فرمایا کہ اس جانور کو کھانے میں حرج نہیں۔خواہر زادہ نے مبسوط کی شرح میں فرمایا  کہ جانور کا حلال ہونا تو اس لئے ہے کہ  اباحت کا تعلق شرعاً رگوں کے کٹنے اور بسم اللہ پڑھنے سے ہے اور وہ پایا گیا  ہے اور قبلہ رخ کرنا سنت مؤکدہ ہے کیونکہ لوگوں کا اس پر توارث جاری ہے اور سنت کا ترک حرمت کو ثابت نہیں  کرتا،لیکن بغیر عذر اس کا ترک مکروہ ہوگا۔ (تبیین الحقائق مع حاشیۃ الشلبی، کتاب الذبائح، جلد5،صفحہ292،مطبوعہ قاھرۃ)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں :’’سنت متوارثہ آن ست کہ روئے خود و روئے ذبیحہ ہر دو سوئے قبلہ کند، وسر ذبیحہ در بلاد ما کہ قبلہ سوئے مغرب ست جانب جنوب بود تاذبیحہ بر پہلو چپ خودش خوابیدہ باشد، وپشت او جانب مشرق، تاروئے سمت قبلہ بود، وذابح پائے راست خود برصفحہ راست گردنش نہادہ ذبح کند، اگر توجہ یا توجیہ بہ قبلہ ترک کند مکروہ است‘‘ (ترجمہ)سنت یہ چلی آرہی کہ ذبح کرنے والا اور جانور دونوں قبلہ رو ہوں، ہمارے علاقہ میں قبلہ مغرب میں ہے اس لئے سرِ ذبیحہ جنوب کی طرف ہونا چاہئے تاکہ جانور بائیں پہلو لیٹا ہو اور اس کی پیٹھ مشرق کی طر ف ہو تاکہ ا س کا منہ قبلہ کی طرف ہوجائے، اور ذبح کرنے والا اپنا دایاں پاؤں جانورکی گردن کے دائیں حصہ پر رکھے اور ذبح کرے اور خود اپنا یا جانور کا منہ قبلہ کی طرف کرنا ترک کیا تو مکروہ ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد20،صفحہ216،217،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   سنتِ متوارثہ کی پیروی لازم ہےاور بغیر عذر سنت متوارثہ  کا   خلاف    ناپسندیدہ  ہے،چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ایک سنت متوارثہ  کے خلاف کرنے کے متعلق فرماتے ہیں:’’یہ امر خلاف سنتِ متوارثہ مسلمین ہے اور سنتِ متوارثہ کا خلاف مکروہ  ۔۔۔ اور متوارث کا اتباع ضرور ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد8،صفحہ302،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   فتاوی رضویہ ہی میں ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:’’سنتِ متوارثہ کا خلاف ناپسند ہے،فی الدرالمختار ان المسلمین توارثوہ فوجب اتباعھم أی ثبت وتاکد(یعنی درمختار میں ہے کہ یہ مسلمانوں میں توارث کے ساتھ ثابت ہے لہذا ان کی اتباع واجب ہے  یعنی ثابت اور مؤکد ہے )۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ399-400، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم