Janwar Halal Karne Ke Liye Kitni Rago Ka Katna Zaroori Hai ?

 

جانور حلال کرنے کے لیے کتنی رگوں کا کٹنا ضروری ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13520

تاریخ اجراء:16ربیع الاول446 1ھ/21ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ چھوٹے یا بڑے جانور کو حلال کرنے کے لیے اُس کی کتنی رگوں کا کٹنا ضروری ہے؟ بعض لوگوں سے سنا ہے کہ تین رگیں ہوتی ہیں وہ کٹ جائیں تو جانور حلال ہوجاتا ہے۔ شریعت اس متعلق ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جانور چھوٹا ہو یا بڑا، اُسے  حلال کرنے کے لیےجانور   کی گردن میں موجود چار رگوں کا مکمل یا اُن چاروں رگوں میں سے اکثر یعنی تین رگوں کا کٹ جانا ضروری ہے، اگر نصف یا اس سے کم رگیں کٹیں، تو اس صورت میں وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ذبح میں کاٹی جانے والی  چاروں  رگوں کے نام یہ  ہیں:  (1) حلقوم: سانس والی نالی۔ (2) مُری: جس نالی سے کھانا پانی اترتا ہے۔  (3،4) ودجین:  خون والی دو  رگیں۔

   جن چار رگوں کو ذبح میں کاٹا جاتا ہے، اُس سے متعلق فتاوٰی عالمگیری  میں ہے: والعروق التی تقطع فی الذکاۃ أربعۃ:الحلقوم، وھو مجری النفس، والمری، وھو مجری الطعام، والودجان وھما عرقان فی جانبی الرقبۃ یجری فیھما الدم، فإن قطع کل الأربعۃ حلت الذبیحۃ، وإن قطع أکثرھا فکذٰلک عند أبی حنفیۃ رحمہ اللہ تعالی و قالا: لابد من قطع الحلقوم و المریء و احد الودجین، والصحیح قول أبی حنفیۃ رحمہ اللہ تعالی لما أن للأکثر حکم الکل، کذا فی المضمرات، و فی الجامع الصغیر إذا قطع نصف الحلقوم و نصف الأوداج ونصف المرئ لا یحل لأن الحل متعلق بقطع الکل أو الأکثر و لیس للنصف حکم الکل فی موضع الإحتیاط کذا فی الکافی۔یعنی وہ رگیں جو ذبح شرعی میں کاٹی جاتی ہیں، چار ہیں: (1)حلقوم:یہ سانس کی نالی ہے۔  (2)مری : وہ کھانے کی رگ ہے ۔  (4-3)ودجان: یعنی گردن کے دونوں جانب  دو رگیں، جن میں خون جاری ہوتا ہے۔ اگر یہ چاروں کٹ جائیں ،تو ذبیحہ حلال ہوگا۔ اگر اکثر رگیں کٹ جائیں، تب بھی امام اعظم  علیہ الرحمہ کے نزدیک حلت کا حکم ہے۔صاحبین علیہما الرحمہ کے نزدیک حلقوم، مری اور دوجین میں سے کسی ایک کا کٹنا حلت کے ضروری ہے، لیکن امام اعظم علیہ الرحمہ کا مؤقف ہی صحیح ہے کہ اکثر کا حکم کل جیسا ہوتا ہے، "مضمرات" میں اسی طرح مذکو رہے۔ "جامع الصغیر"  میں ہے کہ جب سانس کی نالی ، خون کی دونوں رگیں اور کھانے کی نالی نصف کاٹ دی گئی ،تو جانور حلال نہیں ہو گا، اس لیے کہ حلال ہونے کا تعلق کُل یا اکثر رگوں کے کٹنے سے ہے، احتیاط والی جگہ پر  نصف کےلیے کل والا حکم نہیں ہے،"کافی"  میں اسی طرح مذکور ہے۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الذبائح، ج 05، ص 287، مطبوعہ پشاور)

   فتاوٰی قاضی خان   میں ہے:”الأصل في اعتبار الذكاة قوله تعالى : ﴿اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ﴾ ومحل الذكاة في المقدور ذبحه أهلياً كان أو وحشياً، الحلق كله لقوله عليه الصلاة والسلام: "الذكاة ما بين اللبة واللحيين" والذكاة الكاملة فري الأوداج الأربعة، وهي: الحلقوم والمريء والعرقان اللذان بينهما الحلقوم والمريء؛ لأن المقصود تسييل الدم والرطوبات النجسة وذاك يحصل بما قلنا۔ فإن قطع ثلاثة منها، حل في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى  أي ثلاث كان۔ یعنی حلت میں اصل ذبح شرعی ہےجیسا کہ  ارشادِ باری تعالیٰ ہے "مگر جنہیں تم ذبح کرلو"۔  ذبح اختیاری میں ذبح کی جگہ پورا حلق ہے خواہ پالتو جانور ہو یا وحشی جانور، اس حدیثِ پاک کی بنا پر کہ "ذبح شرعی لبہ(سینے کا بالائی حصہ) اور دونوں جبڑوں کے مابین ہے"۔ کامل ذبح چاروں رگوں کا کٹ جانا ہے اور وہ چاروں رگیں یہ ہیں حلقوم، مری، اور دو وہ رگیں جن کے درمیان  حلقوم اور مری ہوتی ہیں، کیونکہ ذبح سے مقصود خون  اور نجس رطوبات کا بہانا ہے اور ہم نے جو بات کہی ہے اس سے یہ مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔ ہاں! اگر ان رگوں میں سے  تین رگوں کو کاٹا تو امام اعظم علیہ الرحمہ کے نزدیک ان چاروں میں سے کوئی سی بھی تین رگیں کٹ گئیں تب بھی وہ  جانور حلال ہوجائے گا۔ ( فتاوٰی قاضی خان، کتاب الصید و الذبائح، ج 03، ص 257-256،  دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

   فتاوٰی رضویہ   میں ہے:” تحقیق یہ ہے کہ ذبح میں گھنڈی کا اعتبار نہیں، چاروں رگوں میں سے تین کٹ جانے پر مدارہے۔ اگر ایک یا دو رگ کٹی حلال نہ ہوگا اگرچہ گھنڈی سے نیچے ہو، اور اگر چاروں یا کوئی سی تین کٹ گئیں تو حلال ہے اگر چہ گھنڈی سے اوپر ہو۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 20، ص 219، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:’’ جو رگیں ذبح میں کاٹی جاتی ہیں وہ چار ہیں۔(1) حلقو م یہ وہ ہے جس میں سانس آتی جاتی ہے، (1)مری اس سے کھانا پانی اترتا ہے (3-4)ان دونوں کے اغل بغل اور دو رگیں ہیں جن میں خون کی روانی ہے ان کو ود جین کہتے ہیں۔۔۔۔۔ذبح کی چار رگوں میں سے تین کا کٹ جانا،  کافی ہے یعنی اس صورت میں بھی جانور حلال ہو جائے گا کہ اکثر کے لیے وہی حکم ہے جو کل کے لیے ہے اور اگر چاروں میں سے ہر ایک کا اکثر حصہ کٹ جائے گا جب بھی حلال ہو جائے گا اور اگر آدھی آدھی ہر رگ کٹ گئی اور آدھی باقی ہے تو حلال نہیں۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 313-312،  مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

ٹیگز : Rago Janwar Halal Zibah