حرام چیزوں سے بنی ہوئی دوا کھانا یا بدن پر لگانا کیسا ؟

مجیب:مولانا شاکر مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7057

تاریخ اجراء:20محرم الحرام1442ھ09ستمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض حکیم حضرات اپنی کچھ دیسی دواؤں میں سانپ اورکیڑے استعمال کرتے ہیں اورکچھ ادویات میں سانپ کی کینچلی یعنی وہ سفید جالی نُماشفاف جھلی جواُترجاتی ہے،ڈالتے ہیں،توکیاایسی ادویات کاکھانایاظاہرِ بدن پراستعمال کرنا شرعاًجائزہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سانپ اورکیڑے دوطرح کے ہوتے ہیں ۔ایک  وہ جن میں بہنے والا خون نہیں ہوتااوردوسرے وہ جن میں بہنے والاخون ہوتاہے،دونوں کا کھانا حرام ہے،لہٰذا جس کھانے والی دوامیں انہیں ڈالاگیاہو،اس دوا کاکھانابھی حرام ہے،البتہ جن سانپوں اور کیڑوں میں بہنے والاخون نہیں ہوتا،انہیں اگر ایسی دوامیں ڈالاجائے جس کااستعمال فقط ظاہرِ بدن پرہو،کھانے میں نہ ہوتووہ دواظاہرِبدن پرلگانا،جائزہے،کیونکہ جس سانپ یاکیڑے میں خون نہیں ہوتاان کاکھاناتوحرام ہی ہے،لیکن چونکہ وہ خود ناپاک نہیں ہوتے،اس لیے وہ جس دوامیں ڈالے جائیں گے وہ بھی ناپاک نہیں ہوگی،پاک ہی رہے گی اورپاک چیزکاظاہر ِبدن پراستعمال جائزہے، جیسے افیون کھاناحرام ہے ،لیکن بطورِ دواظاہرِبدن پرلگانا،جائزہےاوروہ سانپ ، کیڑے جن میں بہنے والاخون ہوتاہے،وہ حرام بھی ہیں اور ناپاک بھی،لہٰذااگریہ کسی دوامیں ڈالے جائیں،تووہ اس دواکوناپاک کردیں گے،کیونکہ ناپاک چیزجب پاک چیزسے ملتی ہے ،توپاک کوبھی ناپاک کردیتی ہےاورناپاک چیزکاظاہرِ بدن پراستعمال جائزنہیں ہے کہ اس سے بدن بھی ناپاک ہوجائے گا۔

    سانپ کی جھلی یعنی کینچلی(وہ سفیدجالی نماشفاف جھلی یاپوست جوسانپ کی جلدپرہوتی ہے۔) جس دوا میں شامل ہو،اسے کھانا،جائزنہیں کہ یہ حرام ہے،لیکن ظاہرِ بدن پرلگاسکتے ہیں۔اس لیے کہ یہ پاک ہے اورپاک چیزظاہرِ بدن پرلگانا،جائزہے۔

        حشرات الارض کا کھانا حرام ہے ، اس بارے میں امام محمدبن احمدسرخسی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:’’والمستخبث حرام بالنص لقولہ تعالی:﴿وَیُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الْخَبٰٓئِثَ﴾ولھذا حرم تناول الحشرات، فإنھا مستخبثۃ طبعا، وإنما أبیح لنا أکل الطیبات‘‘ترجمہ:اورخبیث چیزنص کی بناپرحرام ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے(اورنبی لوگوں پرخبیث چیزوں کوحرام کرتےہیں)اوراسی وجہ سے حشرات کاکھاناحرام ہے ،کیونکہ یہ  طبعاًخبیث ہیں،جبکہ ہمارے لیے پاکیزہ چیزوں کوکھاناحلال کیاگیاہے۔

(مبسوط،کتاب الصید،ج11،ص220،مطبوعہ دارالمعرفہ،بیروت)

    امام محمودبن احمدعینی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:’’وأما حرمۃ أکل ما لیس لہ دم غیر مسفوح غیر السمک والجراد وإن کان طاھرا علی ما مر....ولا یلزم من ذلک النجاسۃ‘‘ترجمہ:اورجن میں بہنے والاخون نہیں ہوتا،ان کاکھاناحرام ہے،سوائے مچھلی اورٹڈی کے(کیونکہ مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں)،اگرچہ یہ حشرات پاک ہیں۔ اس کے مطابق جوپیچھے گزرااورکھانے کے حرام ہونے سے ان کاناپاک ہونالازم نہیں آتا۔                                                                          

(البنایہ،کتاب الطھارات،باب فی الماء الذی یجوزبہ الوضو،ج01،ص391،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

    علامہ عبد الغنی الدمشقی الحنفی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:’’لا یحل أکل الحشرات کلھا أی المائی والبری کالضفدع والسلحفاۃ والسرطان والفأر(ملتقطا)‘‘ترجمہ :تمام حشرات کاکھاناحرام ہے،خواہ وہ حشرات تری کے ہوں یاخشکی کے۔جیسے مینڈک ، کچھوا،کیکڑااورچوہا۔

 (اللباب فی شرح الکتاب،ج3،ص230،المکتبۃ العلمیہ ،بیروت)

    اورجن حشرات میں بہنے والاخون نہ ہو،ان کے پاک ہونے کے بارے میں صحیح بخاری میں ہے:’’قال النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذاوقع الذباب فی شراب أحدکم فلیغمسہ ثم لینزعہ فان فی احدی جناحیہ داء والاخری شفاء‘‘ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب مکھی تم میں سے کسی کے برتن میں گرجائے ،توچاہیے کہ وہ اسے غوطہ دے پھراسے نکال دے، کیونکہ اس کے دوپروں میں سے ایک میں بیماری ہے اوردوسرے میں شفاء ہے۔

(صحیح بخاری مع عمدۃ القاری،کتاب بدء الخلق،ج15،ص274،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

    مذکورہ بالاحدیث کے تحت علامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری لکھتے ہیں:’’فیہ دلیل علی أن الذباب طاھروکذلک أجسام جمیع الحیوانات الامادل علیہ السنۃ ،وفیہ دلیل علی أن مالانفس لہ سائلۃ اذامات فی ماء قلیل أوشراب لم ینجسہ ‘‘ ترجمہ : اس حدیث میں اس بات پردلیل ہے کہ مکھی پاک ہے اوراسی طرح تمام حیوانات کے اجسام( بھی پاک ہیں) سوائے اس کے جس کے ناپاک ہونے پرسنت(دلیل) واردہوئی اور  حدیث میں اس بات پر بھی دلیل ہے کہ جس میں بہتاہواخون نہ ہوجب وہ قلیل پانی یا کسی مشروب میں مرجائے تواسے ناپاک نہیں کرے گی۔

 (مرقاۃ المفاتیح،کتاب الصیدوالذبائح،باب مایحل أکلہ ومایحرم،ج08،ص44،مطبوعہ  کوئٹہ )

    فتاوی عا لمگیری میں ہے:’’وسؤرمالیس لہ نفس سائلۃ ممایعیش فی الماء أوغیرہ طاھروموت مالیس لہ نفس سائلۃ فی الماء لاینجسہ کالبق والذباب والزنابیروالعقاریب ونحوھا ‘‘ترجمہ:اورجس میں بہتا خون نہ ہو اس کا جوٹھا پاک ہے، خواہ وہ پانی میں رہتا ہو یا خشکی پراور اسی طرح جس میں بہتا خون نہ ہواس کا پانی میں مرنا پانی کو ناپاک نہیں کرتا،جیسے مچھر،مکھی،بھڑاوربچھووغیرہا۔

(فتاوی عالمگیری،کتاب الطھارۃ،الباب الثالث،الفصل الثانی،ج01،ص24،مطبوعہ کوئٹہ)

    اوربہتے خون والے حشرات کے ناپاک ہونے کے بارے میں تحفۃ الفقہاء میں ہے:’’ إذا کان لہ دم سائل فإن کان بریا ینجس بالموت وینجس المائع الذی یموت فیہ لأن الدم السائل نجس فینجس ما یخالطہ‘‘ترجمہ:جس میں بہتاخون ہواگروہ خشکی پررہنے والاہے، تووہ مرنے سے ناپاک ہوجائے گااوراس مائع(بہنے والی چیز)کوبھی ناپاک کردے گا،جس میں وہ مراہے،کیونکہ بہنے والاخون ناپاک ہوتاہے اور وہ اسے بھی ناپاک کردیتاہے جواس کے ساتھ ملتاہے۔

(تحفۃ الفقھاء ،کتاب الطھارۃ،باب النجاسات،ج1،ص 62، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

    ردالمحتارمیں ہے:’’أن الحیۃ البریۃ تفسدالماء اذاماتت فیہ،ومقتضاہ أنھانجسۃ ان لھادم والالاأی:وان لم یکن للضفدع البریۃ والحیۃ البریۃ دم سائل فلایفسداذاکانت صغیرۃ جدابحیث لایکون لھا دم سائل ، لأنھا حینئذ لاتفسد الماء فتکون طاھرۃ‘‘ترجمہ:خشکی کا سانپ جب پانی میں مرجائے ،تو اسے فاسد کردیتاہے اور عبارت کا مقتضی یہ ہے کہ یہ پانی ناپاک ہےجبکہ خشکی پر رہنے والے سانپ میں خون ہوورنہ وہ پانی ناپاک نہیں یعنی:اگرخشکی کے مینڈک اورخشکی کے سانپ میں خون نہ ہو،تووہ پانی میں مرنے سے پانی کوناپاک نہیں کریں گےجب سانپ اتناچھوٹاہوکہ اس میں بہنے والاخون نہ ہو،تووہ پاک ہے، کیونکہ وہ پانی میں مرنے کی صورت میں پانی کوفاسدنہیں کرتا۔                    

(ردالمحتار،کتاب الطھارۃ،مطلب نواقض الوضو،ج01،ص290-367،مطبوعہ کوئٹہ)

    نجس چیزکے پاک چیزکے ساتھ ملنے کی صورت میں پاک چیزکو بھی ناپاک کردینے کے بارے میں فتح القدیراورتبیین الحقائق میں ہے: ’’و الشیء ینجس بمجاورۃ النجس‘‘ترجمہ:پاک چیزناپاک چیزکے ملنے سے ناپاک ہوجاتی ہے۔

(فتح القدیر،کتاب الطھارات،ج01،ص204،مطبوعہ کوئٹہ۔تبیین الحقائق،باب الأنجاس،ج01،ص199،لاھور)

    پاک چیزکانجاست کے حکم کوحاصل کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃا لرحمن فرماتے ہیں:’’ ھو اکتساب الطاھرحکم النجاسۃ عندلقاء النجس وذلک یحصل فی الطاھرالمائع القلیل بمجرداللقاء وان کان النجس یابسا لابلۃ فیہ وفی الطاھرالغیرالمائع بانتقال البلۃ النجسۃ الیہ فلابدلتنجیسہ من بلۃ تنفصل‘‘ ترجمہ:پاک چیزکاناپاک چیز سے صرف ملنے پر ہی ناپاک ہوجانا اس صورت میں ہوتاہے،جبکہ پاک چیز مائع اورقلیل ہواوریہ ناپاک ہونا دونوں کے صرف مل جانے سے ہوجائے گا، اگرچہ نجس چیز خشک ہو، اس میں تری نہ ہو،جبکہ پاک چیز اگر مائع نہ ہو یعنی ٹھوس ہو ،تو وہ تب ناپاک ہوگی،جبکہ ناپاک شے سے کوئی تری جدا ہوکر اس تک پہنچ جائے۔

      (فتاوی رضویہ،ج02،ص163،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاھور)

    حرام اشیاء کوبطورِدواکھانے کے ناجائزہونے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’إن اللہ أنزل الداء والدواء وجعل لکل داء دواء فتداووا ولا تداووا بحرام‘‘ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے بیماری اور دوا  دونوں کو نازل کیا ہے اور ہر بیماری کے لیے دوا  رکھی ہے، لہٰذا ان دواؤں سے علاج کرو، لیکن حرام چیزوں سے بچو۔

   (سنن ابو داؤد ، کتاب الطب ، باب فی الادویۃ المکروھۃ،ج02،ص174،مطبوعہ لاھور)

    حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشادفرماتے ہیں:’’إن اللہ لم یجعل شفاء کم فیما حرم علیکم‘‘ ترجمہ:بے شک اللہ عزوجل نے تمہاری شفاء ان اشیا ء میں نہیں رکھی جو تم پرحرام کی گئیں ہیں ۔

(صحیح بخاری ،کتاب الاشربۃ،باب شراب الحلواء والعسل،ج02،ص840،مطبوعہ کراچی )

    محیط برہانی،بحرالرائق،تبیین الحقائق،فتاوی خانیہ،ہندیہ اور درمختاروغیرہا کتب اسفارمیں ہے:واللفظ للدر المختار ’’ لایجوز التداوی بالمحرم فی ظاھرالمذھب‘‘ترجمہ:ظاہرالمذہب میں حرام چیزکے ساتھ علاج حرام ہے۔

      (درمختارمع ردالمحتار،کتاب النکاح،باب الرضاع،ج04،ص390،مطبوعہ کوئٹہ)

    حرام نجس وغیرنجس چیزکے ظاہرِ بدن پراستعمال کرنے کے حکم کے بارے میں امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’شراب حرام بھی ہے اورنجس بھی،اس کاخارج بدن پربھی لگانا،جائزنہیں اورافیون حرام ہے نجس نہیں،خارج بدن پراس کااستعمال جائزہے۔‘‘

 (فتاوی رضویہ،ج24،ص198،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    سانپ کی جھلی کے پاک ہونے کے بارے میں محیط برہانی میں ہے:”فأما قميص الحية فقد ذكر شمس الأئمة الحلواني رحمه اللہ في «صلاة المستفتي» قال بعضهم: هو نجس، (وقال بعضهم) هو طاهر. وأشار إلى أن الصحيح أنه طاهر“ترجمہ:بہرحال سانپ کی قمیص (جھلی)توشمس الائمہ حلوانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے (صلاۃ المستفتی)میں ذکرفرمایاکہ بعض فقہاء نے فرمایاکہ یہ ناپاک ہے اوربعض نے فرمایاکہ یہ پاک ہے اوراس طرف اشارہ کیا کہ صحیح یہ ہے کہ پاک ہے۔

(المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی،ج01،ص474،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

    فتاوی عالمگیری میں ہے:”قمیص الحیۃ الصحیح انہ طاھر“ترجمہ:سانپ کی قمیص(جھلی،کینچلی)صحیح یہ ہے کہ پاک ہے۔

(فتاوی عالمگیری،کتاب الطھارۃ،الفصل الثانی،ج01،ص46،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم