مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Aqs-1783
تاریخ اجراء: 15جمادی
الاخریٰ1441ھ/09فروری2020ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین
ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص
نے پچھلے کسی سال میں زکوٰۃ ادا نہ کی ہو اور کئی
سالوں بعد اب ادا کرنے لگے ، تو زکوٰۃ ادا کرنے میں سونے کی
کس قیمت کا اعتبار ہوگا ؟ جس سال کی زکوٰۃ ہے ، اُس سال
کا یا موجودہ جس سال زکوٰۃ ادا کر رہا ہے ، اس سال کی قیمت
کا اعتبار ہوگا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اس شخص کی جس
سال کی زکوٰۃ رہتی ہے ، اُسی سال کی
قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے وہ زکوٰۃ ادا کرے گا ، موجودہ سال
کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا ، کیونکہ صاحبِ نصاب شخص کے
مالِ زکوٰۃ پر قمری سال کے اعتبار سے جس دن سال مکمل ہو ،
زکوٰۃ کی ادائیگی میں اُسی دن اور
اُسی سال کی قیمت کا اعتبار ہوتا ہے خواہ اُسی سال ادا
کرے یا کسی اور سال ادا کرے ۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :” تعتبر
القيمة عند حولان الحول اذا كان له مائتا قفيز حنطة للتجارة تساوی
مائتی درهم فتم الحول ثم زاد السعر أو انتقص فان أدى من عينها أدى
خمسة أقفزة وان أدى القيمة تعتبر قيمتها يوم الوجوب “ ترجمہ:
( زکوٰۃ کی ادائیگی میں قمری ) سال
مکمل ہونے کے وقت کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا
۔۔۔ ( مثال کے طور پر ) کسی شخص کے پاس دو سو قفیز
تجارت کے لیے گندم تھی ، جو دو سو درہم کے برابر تھی ، اس پر
سال مکمل ہوگیا ۔ پھر قیمت بڑھ گئی یا کم
ہوگئی ، تو اگر اس شخص نے اُن ( گندم کے قفیز ) کے ذریعے
ہی زکوٰۃ نکالنی ہے ، تو پانچ قفیز ادا کرے گا اور
اگر قیمت کے ذریعے نکالے ، تو جس دن زکوٰۃ لازم
ہوئی تھی ( یعنی سال مکمل ہوا تھا ، ) اس دن کی
قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔ (
الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب الزکوٰۃ ، الفصل فی
العروض ، جلد 1 ، صفحہ 179 ، مطبوعہ بیروت )
سیدی
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ
رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے
ہیں :” سونے کے عوض سونا، چاندی کے عوض چاندی زکوٰۃ
میں دی جائے ، جب تو نرخ کی کوئی حاجت ہی
نہیں، وزن کا چالیسواں حصہ دیا جائے گا، ہاں اگر سونے کے بدلے
چاندی یا چاندی کے بدلے سونا دینا چاہیں ، تو نرخ
کی ضرورت ہوگی، نرخ نہ بنوانے کے وقت کا معتبر ہو نہ وقتِ ادا کا،اگر
ادا سال تمام کے پہلے یا بعد ہو جس وقت یہ مالکِ نصاب ہُوا تھا ، وہ
ماہ عربی و تاریخ وقت جب عود کریں گے ، اس پر زکوٰۃ
کا سال تمام ہوگا ، اس وقت کا نرخ لیا جائے گا۔ “
( فتاویٰ
رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 133 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
نیز زکوٰۃ
کی ادائیگی میں تاخیر کرنے کے سبب وہ گنہگار
بھی ہوا ، اس سے توبہ بھی لازم ہے ، کیونکہ زکوٰۃ
لازم ہونے کے بعد فوراً ادا کرنا لازم ہے ، بلاعذر تاخیر کرنا ناجائز و گناہ
ہے ۔
سیدی
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ”
اب تک جو ادا میں تاخیر کی، بہت زاری کے ساتھ اُس
سے توبہ فرض ہے اور آئندہ ہر سال تمام پر فوراًادا کی جائے ۔“(
فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 129 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور
)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟