Zakat Ki Raqam Mustahiq Ko Udhar Dena

کیا اپنی زکوٰۃ کی رقم سے مستحق زکوٰۃ کو ادھار  دیا جاسکتا ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12308

تاریخ اجراء:        23ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/23جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی  مستحقِ زکاۃ شخص ادھار مانگے تو اپنی زکوٰۃ کی رقم سے اسے بتائے بغیر ادھار دیا جاسکتا ہے، جبکہ  نیت یہ ہو کہ جب وہ ادھار واپس کرے گا تو اسے وصول کرکے پھر زکوٰۃ کی رقم میں ڈال دیں گے؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ خالصۃً  اللہ عزوجل کی رضا کے لیےاپنا ہر قسم کا نفع ختم کرکے کسی غیر ہاشمی مستحقِ زکوٰۃ شخص کو زکوٰۃ کی نیت سے اس  رقم کا مالک بنادیا جائے، جبکہ یہاں صورتِ مسئولہ میں فقیر کو دیتے وقت تو زکوٰۃ دینے کی شرط پائی ہی نہیں جا رہی کہ یہاں تو اصل میں ادھار دیا جارہا ہے جیسا کہ سوال میں اس بات کی واضح صراحت ہے کہ جب وہ رقم واپس کرے گا تو دوبارہ اسے زکوٰۃ کی رقم میں ڈال دیں گے، لہذا صورتِ مسئولہ میں ادائیگی زکوٰۃ کی نیت نہ ہونے کی بنا پر آپ کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔

   البتہ یہاں یہ مسئلہ ضرور ذہن نشین رہے کہ اگر زکوٰۃ کا ہجری سال مکمل ہوچکا ہو تو اس صورت میں  زکوٰۃ کی رقم سے یوں ادھار دینا بھی جائز نہیں ہوگا بلکہ فی الفور زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوگی، کیونکہ بلا وجہ شرعی زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرنا شرعاً ناجائز و گناہ ہے جس سے بچنا ہر  مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ ہاں! اگر یوں ہو کہ ایک شخص نے عارضی طور پر ایڈوانس میں رقم الگ کر کے رکھ لی ہے کہ یہ رقم میں زکوۃ میں ادا کروں گا اور سال بھی ابھی پورا نہیں ہوا ہے تو اس صورت میں اس الگ کی گئی رقم کو کہیں صرف کیا یا ادھار دیا تو اب کسی طرح کی شرعی خامی نہیں پائی گئی ۔

زکوٰۃ کی شرعی تعریف تنویرالابصار میں ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے:’’ھی تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ھاشمی ولا مولاہ مع قطع النفعۃ عن الملک من کل وجہ للہ تعالیٰ۔ ‘‘یعنی اللہ عزوجل کی رضا کے لئے شارع کی طرف سے مقرر کردہ مال کے ایک جزء کا مسلمان فقیر کو مالک کردینا، جبکہ وہ فقیر نہ ہاشمی اور نہ ہی ہاشمی کا آزاد کردہ غلام اور اپنا نفع اس سے بالکل جدا کرلیا جائے۔ (تنویر الابصارمع در مختار ، ج 03،ص 206-203،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے: ” زکاۃ شریعت میں اﷲ (عزوجل) کے لیے مال کے ایک حصہ کا جو شرع نے مقرر کیا ہے، مسلمان فقیر کو مالک کر دینا ہے اور وہ فقیر نہ ہاشمی ہو، نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام اور اپنا نفع اُس سے بالکل جدا

کر لے۔“ (بہار شریعت ، ج 01، ص 874، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سال مکمل ہونے پر فی الفور زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے:”تجب علی الفور عند تمام الحول حتی یاثم بتاخیرہ من غیر عذر“یعنی سال پورا ہونے پر زکوۃ فی الفور لازم ہوجاتی ہے حتی کہ بلاعذرِ شرعی  تاخیر کرنے سےآدمی گناہگار ہوگا۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، ج01،ص119،مطبوعہ پشاور)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:”اگر سال گزر گیا اور زکوۃ واجب الادا ہوچکی تو اب تفریق وتدریج ممنوع ہوگی بلکہ فوراً تمام وکمال زر واجب الادا ادا کرے کہ مذہبِ صحیح ومعتمد ومفتیٰ بہ پر ادائے زکوۃ کا وجوب فوری ہے جس میں تاخیر باعثِ گناہ،ہمارے ائمّہ ثلاثہ رضی اللہ عنہم  سے اس کی تصریح ثابت۔(فتاوٰی رضویہ ،ج10،ص80،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم