تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟ |
مجیب: مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر: Har:1892 |
تاریخ اجراء: 28ذوالحجۃ الحرام 1437 ھ/01اکتوبر 2016 ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید ایک غریب آدمی ہے اورپرزے بناکر گزر بسر کرتا ہے ۔ اس کی دکان میں جو مال پڑا ہے وہ تقریبا سات ہزار روپے تک کا ہے ۔ ماہانہ دس ہزار روپے کماتا ہے جو کہ اس کی ضروریات میں خرچ ہوجاتا ہے ۔ اس کے علاوہ اسے مرحوم والد کی میراث میں سے دوکمروں پر مشتمل مکان بھی بطور حصہ ملا ہے،چونکہ زید غیر شادی شدہ ہے اس لیے اس نے وہ مکان کرایہ پر دیا ہوا ہے ، ماہانہ 3000 کرایہ وصول ہوتا ہے لیکن وہ بھی اس کی ضروریات میں خرچ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس سونا ، چاندی وغیرہ کچھ نہیں ہے ۔ کیا ایسی صورت میں زید کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ سائل:محمد رضوان عطاری (ممتاز کالونی، حیدرآباد ) |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
سوال میں زید کی جو حالت بیان کی گئی کہ اس کے پاس نہ سونا و چاندی ہے نہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم ہے اور نہ ہی حاجت اصلیہ سے زائد کوئی ایسا سامان ہے کہ جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچتی ہواور کرایہ کے مکان سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی اس کی ضروریات میں خرچ ہوجاتی ہے تو اس صورت میں وہ فقیر شرعی ہے اور اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہےاگرچہ کرایہ کے اس مکان کی اصل قیمت نصاب سے زیادہ ہوکیونکہ ایسی صورت میں کہ جب مکان کے کرائے پر گزر بسر ہو مفتی بہ قول کے مطابق کرایہ پر دیے ہوئے مکان کی آمدنی کا اعتبار ہے،اصل قیمت کا نہیں ۔ |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟
اسلامی کتابوں کی مالیت نصاب تک پہنچ رہی ہو، تو کیا ان کی بھی زکوۃ دینی ہوگی؟