Wirasat Mein Milne Wale Maal e Tijarat Par Zakat Farz Hai Ya Nahi?

 

وراثت میں ملنے والے مال تجارت پر زکوۃ فرض ہے یا نہیں؟

مجیب:محمد ساجد عطاری
مصدق:  مفتی ابو الحسن محمدھاشم خان عطاری

فتوی نمبر: JTL-1828

تاریخ اجراء: 08 محرم الحرام    1446 ھ/15 جولائی    2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کےبارےمیں کہ زید کے والد صاحب  نے چند پلاٹ  تجارت کی نیت سے خریدے تھے جن کی وہ زکوۃ ادا کرتے تھے۔ اس بار سال مکمل ہونے سے قبل زید کے والد صاحب کاانتقال ہو گیا۔ تو  بطور وراثت زید کے حصے میں ان میں سے ایک پلاٹ آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا   زید پر لازم ہے کہ وہ اس پلاٹ کی بھی  زکوۃ ادا کرے ؟جبکہ زید ویسے بھی صاحب نصاب ہے اور اپنے تجارتی مال و رقم وغیرہ کی  زکوۃ ادا کرتا ہے۔نیز یہ بھی بتا دیں کہ اس پلاٹ کی زکوۃ کب فرض ہوگی؟ جب  اس پلاٹ کا  سال مکمل ہوجائے گا  اس وقت یا اس سے پہلے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   وہ  پلاٹ زید کے والد کے پاس تجارت کی نیت سے تھا، تو وہ زید کو وراثت میں ملنے کے بعد اس کے حق میں بھی تجارت کا مال ہی شمار ہوگا اور چونکہ زید  پہلے سے ہی اپنے تجارتی مال اور رقم وغیرہ کی وجہ سے صاحبِ نصاب ہے اور اس کی زکوۃ کا سال چل رہا ہے ، تو جیسے ہی وہ زکوۃ کا سال پورا ہوگا ، دیگر اموال کے ساتھ ساتھ اس پلاٹ کی زکوۃ ادا کرنا بھی فوراً ضروری ہو جائے گا۔ اس پلاٹ کا الگ سے سال شمار نہیں کیا جائے گا،  کیونکہ دورانِ سال جب زکوۃ کے مال کی جنس سے کوئی مال ملے ، تو وہ بھی پہلے والے مال کے ساتھ لاحق ہو جاتا ہے اور اس کا سال بھی دیگر اموال کے ساتھ ہی شمار ہوتا ہے(بشرطیکہ ایک مال پر دو مرتبہ زکوۃ دینا لازم نہ آئے)اور اس معاملے میں رقم ، تجارتی مال و سونا چاندی ایک ہی جنس شمار ہوتے ہیں۔

   اوپر مذکور حکم اس وقت ہو گا جب زید نے  اس پلاٹ میں زکوٰۃ کی نیت کر لی تھی یا کچھ بھی نیت نہ کی تھی، لیکن بہر حال اگر زید نے اس وقت یا اس کے بعداس پلاٹ کو تجارت کی نیت سےقصداً  خارج کر دیا  یعنی   یہ  نیت کر لی  تھی کہ یہ پلاٹ میں نے بیچنا نہیں بلکہ اپنے کسی کام میں لاؤں گا ، تو پھر یہ تجارت سے نکل جائے گا اور اب اس کی زکوۃ زید پر فرض نہیں ہوگی۔

   اس مسئلے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مورث کا مال ِ تجارت، جب وراثت میں کسی کو ملتا ہے  تواگر وارث نے مورث کی موت کے بعداس میں تجارت کی نیت کر لی  ، تو یہ وارث کے حق میں بھی مال تجارت ہی شمار ہوگا اور اگر وارث نے  مورث کے مرنے کے بعد تجارت کی نیت نہیں کی ، تو اب وہ وارث کے حق میں مالِ تجارت شمار ہوگا یا نہیں اس حوالے سے دو اقوال ہیں اور راجح یہ ہے کہ نیت نہ  ہونے کی صورت میں بھی وارث کے حق میں یہ مال تجارت شمار ہوگا کیونکہ  وارث ، میت کا  قائم مقام، خَلف  و نائب ہونے کی حیثیت سے مال حاصل کرتا ہے ، تو جو حیثیت مال کی اصل کے پاس تھی وہی حیثیت خَلف و قائم مقام کے پاس بھی برقرار رہے گی، ہاں اگر وارث نے تجارت سے خارج کر کے اپنے استعمال وغیرہ کی نیت کر لی ، تو اب وارث کے حق میں وہ مالِ تجارت شمار نہ ہوگا۔

   صدر الشریعہ،بدر الطریقہ،مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’مورث کے پاس تجارت کامال تھا، اس کے مرنے کے بعد وارثوں نے تجارت کی نیّت کی تو زکاۃ واجب ہے۔‘‘(بھارِ شریعت،جلد01،حصہ05،صفحہ883،مکتبۃ المدینہ)

   فتاویٰ عالمگیری میں بحوالہ محیط سرخسی ہے:”وفي السائمة، ومال التجارة إن نوى الورثة الإسامة أو التجارة بعد الموت تجب  و إن لم ينووا قيل تجب وقيل لا تجب كذا في محيط السرخسي “ترجمہ:سائمہ اور مال تجارت میں  اگر ورثا مورث کی موت کے بعد اسامت اور تجارت  کی نیت کرلیں تو  ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی اور اگر وہ نیت نہ کریں تو ایک قول یہ  ہے کہ زکوٰۃ واجب ہوگی  اور ایک قول یہ ہے کہ نہیں ہوگی ،اسی طرح محیط سرخسی میں ہے۔(فتاوی عالمگیری،کتاب الزکوٰۃ،جلد01،صفحہ174،دار الفكر ، بيروت)

   تحفۃ الفقہاء میں ہے:”فأما في مال التجارة والإسامة فإن نوى الورثة التجارة أو الإسامة بعد الموت تجب وإن لم ينووا قال بعضهم تجب لأن الوارث والموصى له خلف الميت فينتقل المال إليهما على الوصف الذي كان ما لم يوجد التعيين من جهتهما بأن وجدت منهما نية الابتذال والإعلاف  وقال بعضهم لا بد من وجود النية لأن الملك قد زال عن الميت حقيقة وتجدد الملك للوارث والموصى له “ترجمہ: رہا مال تجارت  اور سائمہ جانور، تو اگر ورثا مورث کی موت کے بعد  تجارت  اور اسامت کی نیت کرلیں  تو ان میں زکوٰۃ واجب ہوجائے گی  اور اگر ان میں نیت نہ کریں تو بعض فقہا فرماتے ہیں زکوٰۃ واجب ہوگی  ، اس لیے کہ وارث اور موصی لہ  میت  کے خلیفہ ہوتے ہیں۔چنانچہ  ان کی ملکیت میں مال  اسی طور پر آتا  جس طرح و ہ مورث کے پاس تھا،جب تک کہ  ان  لوگوں کی  جانب سے  کوئی اور جہت متعین نہ ہوجائے،اس طرح کہ ان کی طرف سے  ذاتی استعمال کی نیت ہو جائے یا سائمہ جانور میں معلوف بنانے کی  نیت بن جائے اور بعض فقہا فرماتے ہیں( مال تجارت بننے کے لیے ) وارث کا تجارت کی  نیت کرنا  ضروری ہے اس لیے کہ حقیقۃً اس مال کی ملکیت میت سے    زائل ہوجاتی ہے اور وارث اور موصی لہ کے حق میں ملکیت نئے سرے سے  پائی جاتی ہے۔(تحفة الفقهاء،جلد01، صفحه 295،كتاب الزكوٰۃ ،زکوٰۃ السوائم،دار الكتب العلميہ)

نیت نہ کرنے کی صورت میں اگرچہ دو اقوال ہیں ، لیکن ظاہرا  راجح وجوبِ زکوۃ والاقول ہی ہے ، کیونکہ

   (1)محیط و تحفہ وغیرہ میں اسی کو مقدم ذکر کیا گیا ہے اور کسی قول کو مقدم ذکر کرنا ، اس کی ترجیح کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔  جیسا کہ رد المحتار میں ہے: ”وتقديمهم قول محمد يشعر بترجيحه“ یعنی  فقہائے کرام  کا امام محمد کے قول کو مقدم کرنا  اس کی ترجیح کی خبر دیتا ہے۔(الدر المختارورد المحتار، جلد2، صفحہ264، دار الفکر، بیروت)

   امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ  ایک مسئلے میں اسبابِ ترجیح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”ومعلوم ان التقدیم یشعر بالاختیار کما فی کتاب الشرکۃمن العنایۃ والنھر والدرالمختاراور یہ مسلّمہ ہے کہ تقدیم مختار ہونے پر دال ہے جیسا کہ عنایہ، نہر اور درمختار کی کتاب الشرکت میں ہے(ت)(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ93، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   (2)نیت نہ ہونے کی صورت میں بھی اس مال کو مالِ تجارت شمار کرنے میں فقراء کا زیادہ نفع ہے اور فقہاءاس بات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں کہ زکوۃ کے مسائل میں فقراء کے نفع والے قول کو لیا جائے ، لہٰذا اس اعتبار سے بھی یہی راجح ہے ۔ امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ  نے زکوۃ کےباب میں اس طرح کے ایک اختلافی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے جب ائمہ کا اختلاف بیان کیا ، تو ایک قول کو راجح ہونے کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک وجہ ترجیح یوں بیان کی:” و سادساً : بانہ الا نفع للفقراء وقد علم ان للعلماء بذٰلک اعتناءً عظیماً فی الزکوٰۃ والاوقاف “سادساً : یہ فقراء کیلئے زیادہ سُود مند ہے اور یہ معلوم ہے کہ علماء، زکوٰۃ و اوقاف  میں اس کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں ۔(ت)“(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ95، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   (3)نیز وراثت میں مال تجارت ملنے کا مسئلہ ،  وراثت میں  سائمہ جانور ملنے کی طرح ہے ، جیسا کہ اس عبارت میں ان کا حکم بھی اکٹھا ہی بیان کیا گیا ہے اور سائمہ جانور وراثت میں ملنے والے مسئلے میں ترجیح اسی بات کو ہے کہ  ورثا نے سائمہ بنانے کی نیت نہ بھی  کی ہو ، تو سائمہ کی زکوۃ ورثا پر لازم ہوگی ۔ اسی کو قاضیخان نے اختیار کیا اور صاحب ، درمختار، علامہ شامی  و بہار شریعت وغیرہ نے  لیا، لہٰذا مالِ تجارت وراثت میں ملنے کی صورت میں بھی اگر کچھ نیت  نہ کی ہو ، تو بھی  یہی مختار قول ہوگا کہ  اسے وارث کے حق میں مالِ تجارت شمار کیا جائے گا۔

   درمختار و رد المحتار میں ہے:’’  وما بین الھلالین من رد المحتار:” في الخانية: لو ورث سائمة لزمه زكاتها بعد حول نواه أو لا (أي نوى السوم أو لا لأنها كانت سائمة فبقيت على ما كانت وإن لم ينو خانية) “ یعنی خانیہ میں ہے:اگر کوئی   سائمہ جانور کا وارث بنے تو سال پورا ہونے پر  اس کی زکوٰۃ لازم ہوگی،خواہ سائمہ بنانے  کی نیت کرے یا نہ کرے اس لیے کہ وہ جانور سائمہ تھا تو وہ وارث کے پاس بھی اسی صفت پر باقی رہے گا  اگر چہ  اس نے(سائمہ بنانے کی ) نیت نہ کی ہو،خانیہ۔(در المختار ورد المحتار،جلد02،كتاب الزكوٰۃ،صفحہ273،دار الفکر،بیروت)

   شرح نقایہ للبرجندی میں ہے : ”ثم السائمة ان كان ميراثا فلا حاجة الى النية “ترجمہ:پھر سائمہ اگر میراث میں ہو تو اس میں نیت کی حاجت نہیں ہے۔(شرح نقایۃ،مخطوطۃ،جلد01،صفحہ94)

   صاحب بہار شریعت لکھتے ہیں:” چرائی کے جانور وراثت میں ملے، زکاۃ واجب ہے چرائی پر رکھنا چاہتے ہوں یا نہیں۔“(بھار شریعت،جلد01،زکوٰۃ کا بیان،صفحہ883،مکتبۃ المدینہ)

   دورانِ سال نصاب کی جنس کا مال ملے تو وہ پہلے والے مال سے لاحق ہو جاتا ہے اور اس کا سال بھی پہلے والے مال کے ساتھ ہی مکمل ہو جاتا ہے ، اس کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے: ”جو شخص مالک ِ نصاب ہے اور ہنوز حولانِ حول نہ ہو ا کہ سال کے  اندر ہی کچھ اور مال اسی نصاب کی جنس سے خواہ بذریعہ ہبہ یا میراث یا شرایا وصیّت یا کسی طرح اس کی ملک میں آیا تو وُہ مال بھی اصل نصاب میں شامل کرکے اصل پر سال گزرنا اُ س سب پر حولانِ حول قرار پائے گا اور یہاں سونا چاندی تو مطلقاًایک ہی جنس ہیں خواہ ان کی کوئی چیز ہو اور مال تجارت بھی انہی کی جنس سے گِنا جائے گا اگر چہ کسی قسم کا ہو کہ آخر اس پر زکوٰۃ یوں ہی آتی ہے کہ اس کی قیمت سونے یا چاندی سے لگا کر انھیں کی نصاب دیکھی جاتی ہے ، تو یہ سب مال زروسیم ہی کی جنس سے ہیں اور وسط سال میں حاصل ہوئے ، توذہب و فضّہ کے ساتھ شامل کردئے جائیں گے بشرطیکہ اس ملانے سے کسی مال پر سال میں دوبار  زکوٰۃ لازم نہ آئے۔۔۔۔۔۔تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:المستفاد ولوبھبۃ (اوشراء میراث او وصیّۃ اھ ش )وسط الحول یضم الی نصاب من جنسہ (مالم یمنع منہ مانع ھو الثنی المنفی بقولہ صلی ﷲتعالٰی علیہ وسلم ولا ثنی فی الصدقۃ اھ ش ) فیزکیہ بحول الاصل ولوادی زکوٰۃنقدہ ثم اشتری بہ سائمہ لاتضم(الیٰ سائمۃ عندہ من جنس السائمۃ التی اشتراھابذٰلک النقد المزکی ای لا یزکیھا عند تمام حول السائمۃالاصلیۃعند الامام للمانع المذکور اھ ش )اھ بالتلخیص وفی ش ایضا احد النقدین یضم الی الاٰخرو عروض التجارۃ الی النقدین للجنسیۃ باعتبار قیمتھما بحر   اھ ملخصاً وﷲتعالیٰ اعلم“(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ86، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   نوٹ:واضح رہے کہ اگر مورث نے  مالِ تجارت کے علاوہ کوئی  سامان (عروض)  چھوڑا ، تو اب وارث اگرچہ تجارت کی نیت کر لے ، تب بھی وہ سامان مالِ تجارت نہیں بنے گااور وارث پر اس کی زکوٰۃ لازم نہ ہوگی ، کیونکہ اس موقع پر  یہ تجارت کی  نیت معتبر نہیں ؛ نیتِ تجارت اس وقت ہو سکتی جب کوئی چیز عقدِ معاوضہ میں حاصل ہو۔

   ہدایہ اور اس کی شرح بنایہ میں ہے:”(وإن اشترى شيئا ونواه للتجارة كان للتجارة لاتصال النية بالعمل، بخلاف ما إذا ورث ونوى التجارة؛ لأنه لا عمل منه) ش: يعني لا يكون للتجارة بالإجماع؛ لأن النية تجردت عن العمل“ترجمہ:کسی نے کوئی چیز خریدی اور اس میں تجارت کی نیت کرلی تو نیت تجارت عمل کے ساتھ متصل  ہونے کی وجہ سے وہ  چیز تجارت کے لیے ہوجائے گی ، برخلاف اس صورت کے  کہ جب   اسے کوئی چیز وراثت  میں ملے اور وہ اس میں تجارت کی نیت کرلے،اس لیے کہ   وراثت  سے ملنے میں اس کا کوئی عمل نہیں ہے۔یعنی    وہ چیز بالاتفاق  مال  تجارت کے لیے نہیں ہوگی ، کیونکہ   نیتِ تجارت،  عملِ تجارت   سے خالی ہے۔(البناية  شرح الهداية، جلد03،کتاب الزکوٰۃ،صفحہ310،دار الكتب العلميہ)

   محیط برہانی میں ہے:واتفقوا أيضاً أنه لو ملك هذه الأعيان بالإرث ونوى التجارة وقت موت المورث لا تصير للتجارة، ولا تعمل نيته ترجمہ:فقہائے  کرام نے  اس پر بھی اتفاق کیا ہے کہ اگر  کسی کو اشیاء وراثت  میں ملیں  اور  مورث کے انتقال کے وقت اس نے  تجارت کی نیت کرلی تو وہ اشیاء مال  تجارت نہیں بنیں گی اور اس کی یہ نیت  کارآمد نہ  ہوگی۔(المحيط البرهاني،جلد23،كتاب الزکوٰۃ،صفحہ248،دار الكتب العلميہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم