مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-992
تاریخ اجراء: 25ذوالحجۃالحرام1444 ھ/14جولائی2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی
صورت میں جس سال کی زکوٰۃ رہتی ہے ، اُسی سال
کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے زکوٰۃ کی
ادائیگی لازم ہے ، موجودہ سال
کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا ، کیونکہ صاحبِ نصاب شخص کے
مالِ زکوٰۃ پر قمری سال کے اعتبار سے جس دن سال مکمل ہو ،
زکوٰۃ کی ادائیگی میں اُسی دن اور
اُسی سال کی قیمت کا اعتبار ہوتا ہے خواہ
اُسی سال ادا کرے یا کسی اور سال ادا کرے ۔ اب تک جو زکوٰۃ
اد انہیں کی اس کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ
تاخیر پر توبہ بھی کرنی
ہوگی۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت
مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ
رضویہ میں فرماتے ہیں :” سونے کے عوض سونا، چاندی کے عوض
چاندی زکوٰۃ میں دی جائے ، جب تو نرخ کی
کوئی حاجت ہی نہیں، وزن کا چالیسواں حصہ دیا جائے
گا، ہاں اگر سونے کے بدلے چاندی یا چاندی کے بدلے سونا
دینا چاہیں ، تو نرخ کی ضرورت ہوگی، نرخ نہ بنوانے کے وقت
کا معتبر ہو نہ وقتِ ادا کا،اگر ادا سال تمام کے پہلے یا بعد ہو جس وقت
یہ مالکِ نصاب ہُوا تھا ، وہ ماہ عربی و تاریخ وقت جب عود
کریں گے ، اس پر زکوٰۃ کا سال تمام ہوگا ، اس وقت کا نرخ
لیا جائے گا۔ “( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 133 ، رضا فاؤنڈیشن ،
لاھور )
زکاۃ کی
ادائیگی میں بلاعذرِ
شرعی تاخیر کرنا، ناجائز و گناہ ہے ۔چنانچہ امام اہلسنت رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں :” اب تک جو ادا میں تاخیر کی
بہت زاری کے ساتھ اُس سے توبہ فرض
ہے اور آئندہ ہر سال تمام پر فوراًادا کی جائے ۔“(فتاویٰ رضویہ ،
جلد 10 ، صفحہ 129 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟