Shopping Bag Aur Mithai Ke Boxes Par Zakat Ka Hukum?

شاپنگ بیگ ، مٹھائی کے ڈبوں پر زکوٰۃ کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6974

تاریخ اجراء: 29شوال المکرم1443ھ/31مئی 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہماری بیکری ہے، ہم شروع سال میں ہی اپنی دکان کے نام سے مٹھائی والی ٹوکریاں بنوا کر رکھ لیتے ہیں، یونہی دودھ دہی کا کام بھی کرتے ہیں، توبیکری کی آئٹمز اور دودھ دہی کے لئے سادہ شاپر بڑی تعداد میں خرید کر اسٹاک کر لیتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ استعمال کرتے رہتے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا ان شاپنگ بیگز اور مٹھائی والی ٹوکریوں کی مالیت کو بھی زکوۃ کے نصاب میں شامل کریں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     اولاً یہ سمجھ لیجئے کہ دکاندار وغیرہ کاروباری افراد جب سامان بیچتے ہیں، تو گاہک کو مقصودی سامان کے ساتھ کچھ اور  چیزیں بھی فراہم کرتے ہیں، مثلاً   جانور بیچیں تو اس کے ساتھ رسی اور دیگر لوازمات، یونہی دکاندار مختلف اشیاء ڈالنے کے لئے شاپنگ بیگ دیتے ہیں، تو یہ چیزیں بنیادی طور پر دو طرح کی ہوتی ہیں:

      (1)مقصودی سامان کے ساتھ ضمناً جو چیز دی جا رہی ہوتی ہے، تو سامان کی قیمت کے ساتھ اس کا عوض بھی وصول کیا جاتا ہے اور بیچنے کے لئے ہی اسے خریدا / بنوایا جاتا ہے، جیسے مٹھائی والی ٹوکری اور ڈبہ (کہ عمومی طور پر انہیں مٹھائی کے ساتھ اسی کے ریٹ پر تولا جاتا ہے)۔

      (2) ضمناً دی جانے والی چیز کی قیمت وصول نہیں کی جاتی اور نہ ہی بیچنے کے لئے خریدا جاتا ہے، جیسے سامان ڈالنے کے لئے دیا جانے والا عام شاپنگ بیگ وغیرہ۔

     تو پہلی قسم کی اشیاء کا حکم یہ ہے کہ ان پر زکوۃ فرض ہو گی،  فرضیتِ زکوۃ کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ اشیاء مقصودی سامان کے ضمن میں دی جاتی ہیں، لیکن چونکہ قیمت میں ان کا عوض بھی شامل ہوتا ہے، تو  گویا دکاندار مقصودی اشیاء کے ساتھ انہیں بھی بیچ رہا ہوتا ہے، لہذا ان چیزوں کا شمار مالِ تجارت میں سے ہو گا اور مالِ تجارت پر زکوۃ فرض ہوتی ہے۔ البتہ دوسری قسم کی اشیاء پر زکوۃ فرض نہیں ہو گی، کیونکہ سامان کی قیمت میں ان کا عوض شامل نہیں ہوتا، بلکہ یہ گاہک کو مقصودی سامان کے ساتھ مفت فراہم کی جاتی ہیں، لہذا مالِ تجارت کی تعریف صادق نہ آنے کی وجہ سے ان پر زکوۃ بھی فرض نہیں ہو گی۔

     مالِ تجارت کی زکوۃ کے متعلق حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یامرنا ان نخرج الصدقۃ من الذی نعد للبیع‘‘ ترجمہ : بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے کہ جس (مال) کو ہم بیع (تجارت) کے لئے تیار کریں، اس کی زکوۃ نکالیں‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحہ 228، مطبوعہ لاھور)

     جن اشیاء کا بیچنا مقصود ہوتا ہے، وہ مالِ تجارت ہیں اور جن کا بیچنا مقصود نہیں ہوتا، وہ مالِ تجارت نہیں۔ چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:’’ واما آلات الصناع وظروف امتعة التجارة لا تكون مال التجارة، لانها لا تباع مع الامتعة عادة وقالوا فی نخاس الدواب اذا اشترى المقاود والجلال والبراذع انه ان كان يباع مع الدواب عادة يكون للتجارة، لانها معدة لها وان كان لا يباع معها ولكن تمسك وتحفظ بها الدواب فهي من آلات الصناع فلا يكون مال التجارة اذا لم ینو التجارۃ عند شرائھا‘‘ ترجمہ: بہر حال کاریگروں کے آلات اور سامان رکھنے والے برتن، مالِ تجارت نہیں ہیں، کیونکہ عادۃً انہیں سامان کے ساتھ فروخت نہیں کیا جاتا۔ جانوروں کی خرید و فروخت کرنے والے کے متعلق فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر وہ (جانور کو کھینچنے والی) رسیاں، جھول اور پالان کے نیچے ڈالنے والے کمبل کی خریداری اس لئے کرے کہ وہ ان چیزوں کو جانور کے ساتھ بیچے گا، تو یہ چیزیں بھی تجارت کےلئے ہوں گی، کیونکہ یہ اسی مقصد کے لئے رکھی ہیں اور اگر وہ جانور کے ساتھ بیچتا نہیں ہے، بلکہ اپنے پاس رکھتا ہے اور ان کے ساتھ جانوروں کی حفاظت کرتا ہے، تو پھر ان کا شمار کاریگروں کے آلات میں سے ہو گا اور مالِ تجارت نہیں کہلائیں گی، جبکہ وہ خریدتے وقت تجارت کی نیت نہ کرے ۔‘‘(بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، جلد 2، صفحہ 95،  مطبوعہ کوئٹہ)

     محیط برہانی میں ہے: ’’ولو ان نخاساً يشترى دواباً ويبيعها، فاشترى جلاجل ومقاود وبراقع فان كان يبيع هذه الاشياء مع الدواب ففيها الزكاة وان كانت لحفظ الدواب فلا تجب الزكاة بمنزلة له آلات الصناع وكذلك اذا كان من يبيعه انما يسلم هذه الاشياء لمن يشترى لا على وجه البيع فلا زكاة فيها وهي بمنزلة ثياب الخدم التي يسلم البائع مع الخدم في البيع‘‘ ترجمہ: بیوپاری جو جانوروں کی خرید و فروخت کرتا ہے، اس نے گھنگرو، (جانور کو کھینچنے والی) رسیاں اور چوپائے کا منہ بند خریدے، پس اگر ان اشیاء کو جانوروں کے ساتھ بیچتا ہے، تو ان پر زکوۃ ہو گی اور اگر جانوروں کی حفاظت کےلئے رکھتا ہے، تو کاریگروں کے آلات کے منزلہ میں ہونے کی وجہ سے ان پر زکوۃ نہیں ہو گی، یونہی جو اشیاء بیچی جاتی ہیں، وہ گاہک کو بیچتا نہیں، بلکہ ویسے ہی اس کے حوالے کر دیتا ہے، تو ان پر زکوۃ نہیں ہو گی اور اس صورت میں ان کا حکم خدام (لونڈی غلام) کے کپڑوں کی طرح ہو گا، جنہیں بائع بیع میں خدام کے ساتھ ہی (بغیر عوض)مشتری کے حوالہ کر دیتا ہے‘‘۔(محیط برھانی، کتاب الزکاۃ، جلد 2، صفحہ 249، مطبوعہ بیروت)

     جن کی قیمت وصول کی جاتی  ہے ، ان میں فرضیتِ زکوۃ کا حکم مالِ تجارت ہونے کی وجہ سے ہے کہ دکاندار مقصودی سامان کے ساتھ انہیں بھی بیچنے کی نیت سے خریدتا ہے ، البتہ جنہیں سامان کے ساتھ بیچتا نہیں، وہ مالِ تجارت بھی نہیں۔ اسی سے ملتا جلتا ایک مسئلہ  رنگساز کا رنگ اور دھوبی کا صابن ہے کہ رنگ کا عوض اجرت میں شامل ہونے کی وجہ سے وہ مالِ تجارت ہے، جبکہ صابن کا عوض اجرت میں شامل نہیں ہوتا، لہذا وہ مالِ تجارت نہیں۔ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی رحمۃ  اللہ علیہ بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:’’واما الاجراء الذين يعملون للناس نحو الصباغين والقصارين والدباغين اذا اشتروا الصبغ والصابون والدهن ونحو ذلك مما يحتاج اليه في عملهم ونووا عند الشراء ان ذلك للاستعمال في عملهم ،هل يصير ذلك مال التجارة؟ ۔۔۔ والحاصل ان هذا على وجهين: ان كان شيئا يبقى اثره في المعمول فيه كالصبغ والزعفران والشحم الذی يدبغ به الجلد، فانه يكون مال التجارة، لان الاجر يكون مقابلة ذلك الاثر وذلك الاثر مال قائم، فانه من اجزاء الصبغ والشحم، لكنه لطيف، فيكون هذا تجارة، وان كان شيئا لا يبقى اثره في المعمول فيه مثل الصابون والاشنان والقلي والكبريت ،فلا يكون مال التجارة، لان عينها تتلف ولم ينتقل اثرها الى الثوب المغسول، حتى يكون له حصة من العوض، بل البياض اصلي للثوب يظهر عند زوال الدرن،فما ياخذ من العوض يكون بدل عمله،لا بدل هذه الآلات ،فلم يكن مال التجارة‘‘ترجمہ:بہر حال کاریگر جو لوگوں کے کام کرتے ہیں جیسے رنگریز،دھوبی اور کھالوں کی دباغت کرنے والے،جب یہ رنگ،صابون  ،تیل اور ان جیسی دیگر چیزیں خریدیں کہ جن کی انہیں اپنے کام میں ضرورت پڑتی ہے اور ان چیزوں کو خریدتے وقت یہ نیت کریں  کہ یہ ان کے کام میں استعمال کے لئے ہیں ،تو کیا یہ مالِ تجارت ہوں گی؟۔۔۔ اور حاصل یہ ہے کہ بیشک یہ مسئلہ دوصورتوں پر مشتمل ہے:ایک یہ کہ اگر وہ ایسی چیز ہو کہ کام میں اس کا اثر باقی رہے جیسا کہ رنگ، زعفران اور وہ چربی جس سے کھالوں کی دباغت کی جاتی ہے،پس یہ مالِ تجارت ہوگا،کیونکہ یہاں اجرت اس اثر کے مقابلے میں (بھی) ہوگی اور یہ اثر مال ہے جو( کپڑے اور کھال کے ساتھ)قائم ہے ،کیونکہ یہ رنگ اور چربی کے اجزاء ہیں،لیکن بہت باریک  ہیں،پس یہ مالِ تجارت ہوگا۔اوراگروہ ایسی چیز ہے کہ  کام میں اس کا اثر باقی نہ رہےجیسے صابون،اشنان ،قلی(ایک قسم کے کھار کا نام ہے،جواسی نام کے ایک پودے کی راکھ سے بنایا جاتاہے) اور گندھک،تویہ مالِ تجارت نہیں ،کیونکہ ان کا عین ہلاک ہوجائے گا اور ان کا اثر دھلے ہوئے کپڑے کی طرف منتقل نہیں ہوگا،تاکہ عوض میں سے ایک حصہ اثر کے مقابلہ میں ہو،بلکہ کپڑے کی سفیدی اصلی ہے ،جو کپڑے سے میل ختم ہونے کے وقت ظاہر ہوگی،پس وہ جتنا بھی عوض لے گا وہ اس کے کام کا بدل ہوگا،نہ کہ ان آلات کا بدل ،لہذا یہ مالِ تجارت بھی نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، جلد 2، صفحہ 95،  مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم