مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1673
تاریخ اجراء:17رمضان المبارک1445 ھ/28مارچ2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک شخص خود شرعی فقیر اور
مقروض ہے۔ کچھ سالوں پہلے اس کی بیوی پر زکوۃ دینا
لازم تھی۔ کسی وجوہات یا کم علمی کی وجہ سے
وہ دے نہ سکی۔ اب کیا اس کے شوہر کو کوئی زکوٰۃ
دے اور وہ زکوٰۃ لے کر مالک ہونے کے بعد اپنی بیوی
کو وہ رقم دے کہ تم اس سے اپنی سابقہ سالوں کی زکوۃ ادا کردو تو
یہ ٹھیک ہوگا؟ کیونکہ وہ خود شرعی فقیر ہے اور وہ
شخص زکوٰۃ مانگتا بھی نہیں بلکہ نامناسب سمجھتا ہے کہ کوئی
اسے زکوۃ دے، لیکن اگر کوئی دے دے، تو لے بھی لے گا۔
کیا اسے اگر کوئی زکوۃ
دے ،تو یہ لے کر مالک بننے کے بعد بیوی کا وکیل یا
کفیل ہونے کی حیثیت سے اس کی زکوۃ میں
وہ رقم ادا کرسکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیوی
کے مال کی زکوۃ بیوی پر ہی لازم ہے ،شوہر پر
لازم نہیں ۔ شوہرکا اپنی ذات کے لیے سوال کرنابھی درست نہیں، تاہم اگر اس کے
مانگے بغیر کوئی خود سے زکوۃ
دے دے ،تو اس کے قبضہ کرنے سےدینے والے کی زکوۃ ادا ہوجائے گی
جبکہ شوہرشرعی فقیرمستحق زکوۃ ہواور جو رقم زکوۃ میں
اسے ملی، اگراس رقم سے اپنی بیوی کی اجازت سے اس کی
زکوۃ اداکرے ،تو بیوی کی زکوۃ بھی ادا ہوجائے
گی ۔ نیز اگر بالفرض کہیں سے جائزطریقہ سے زکوۃ
کی ادائیگی کاکوئی سبب نہ بنے، تو بیوی پر
لازم ہے کہ اپنے اموال کے چالیس حصوں میں سےایک حصہ خوش دلی
سے زکوۃ کے لیے نکالے ، زکوۃ دینے کی برکت سے اس کے
انتالیس حصے محفوظ ہوجائیں گے ۔پچھلے سالوں کی جو زکوۃ
لازم ہونے کے باوجود ادا نہیں کی وہ بھی ادا کرنا بیوی
پر لازم ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟