Sharai Faqeer Zakat Syed Ko De To Kya Syed Is Ko Istemal Kar Sakta Hai ?

شرعی فقیر زکوٰۃ کی رقم سید کو دے، تو کیا سید اس رقم کو استعمال کرسکتا ہے؟

مجیب: مفتی ابو محمد  علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-12238

تاریخ اجراء: 16 ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/16جون 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر زکوٰۃ کی رقم کسی شرعی فقیر کو دے دی جائے، پھر وہ شرعی فقیر اس زکوٰۃ کی رقم میں سے کچھ رقم کسی سید کو دے، تو کیا سید کا اس زکوٰۃ کی رقم کو استعمال کرنا شرعاً جائز ہوگا؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں شرعی فقیر نےوہ  زکوٰۃ کی رقم جو آگے سید زادے کو دی ہے تو اس کی حیثیت اب زکوٰۃ کی نہیں بلکہ تحفے  اور نذرانے کی ہے اور شرعاً سید تحفہ قبول کرسکتا ہے،  اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں سید کا شرعی فقیر سے وہ رقم لے کر استعمال کرنا شرعاً جائز ہے ۔ البتہ ایک ہوتا ہے اس طرح کا اتفاق ہوناکہ یوں شرعی فقیر نے سید صاحب کی مدد کر دی اور ایک ہوتا ہے سید صاحب کی مدد صرف اسی طریقے سے ہی کرنا یہ مناسب نہیں ہے متمول افراد کو چاہیے کہ سادات کرام کی خدمت صاف مال سے کریں  اور ان کی  مدد کرنے کو  اپنے لئے باعث شرف سمجھیں ۔

   سوال میں پوچھے گئے طریقے میں زکوۃ ادا ہو جائے گی۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اسی حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:’’متوسط حال والے اگر مصارف مستحبہ کی وسعت نہیں  دیکھتے تو بحمدا ﷲ وُہ تدبیر ممکن ہے کہ زکوٰۃ کی زکوٰۃ ادا ہو اور خدمتِ سادات بھی بجا ہو یعنی کسی مسلمان مصرفِ زکوٰۃ معتمد علیہ کو کہ اس کی بات سے نہ پھرے، مالِ زکوٰۃ سے کچھ روپے بہ نیتِ زکوٰۃ دے کر مالک کردے ، پھر اس سے کہے تم اپنے طرف سے فلاں سیّد کی نذر کر دو اس میں دونو ں مقصود حاصل ہو جائیں گے کہ زکوٰۃ تو اس فقیر کو گئی اوریہ جو سیّد نے پایا نذرانہ تھا،  اس کا فرض ادا ہوگیا اور خدمتِ سیّد کا کامل ثواب اسے اور فقیر دونوں کو ملا۔“  (فتاوٰی رضویہ،ج10،ص106-105،رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   بنو ہاشم کو نفلی صدقات اور ہدیے  دیے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے:”ولا تدفع إلى بني هاشم لقوله عليه الصلاة والسلام "يا بني هاشم إن الله تعالى حرم عليكم غسالة الناس وأوساخهم وعوضكم منها بخمس الخمس"بخلاف التطوع لأن المال ههنا كالماء يتدنس بإسقاط الفرض أما التطوع فبمنزلة التبرد بالماءترجمہ: ”صدقاتِ واجبہ بنی ہاشم کو نہ دئیے جائيں کيونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:"اے بنو ہاشم بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر لوگوں کا دھوون، ان کے اوساخ(یعنی ميل) حرام فرمائے ہيں اور تمہارے لئے اس کے بدلے غنيمت کا پانچواں حصہ مقرر فرمايا۔" بخلاف نفلی صدقات کے، کيونکہ مال زکوٰۃ کی صورت ميں اس پانی کی مثل ہے جوفرض ساقط ہونے سے ميلا ہوتا ہے، جبکہ نفلی صدقہ کا معاملہ پانی سے ٹھنڈک حاصل کرنے کے مقام ميں ہے۔ “(الهداية في شرح بداية المبتدی، کتاب الزکاۃ، ج 01، ص 112،  دار احياء التراث العربي، بیروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ مرآۃ المناجیح میں اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:خیال رہے کہ غنی اور سید کو صدقہ نفل لینا جائز ہے وہ صدقہ ان کے لیے ہدیہ بن جاتا ہے  ۔  (مرآۃ المناجیح، کتاب الزکاۃ،  ج 03، ص 47، ضیاء القرآن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم