Shadi Ke Liye Jo Raqam Jama Ki Jaye Us Par Zakat Aur Qurbani Ka Hukum

شادی کے لیے جورقم جمع کی جائےاس پر زکوۃ اور قربانی کا حکم

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر:WAT-1678

تاریخ اجراء: 04ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/25مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر بچی نابالغ ہو اوروالدین اس کی شادی کے لیے پیسے جمع کر رہے ہوں اور وہ پیسے نصاب کو پہنچ جائیں تو کیا اُن پیسوں پر زکوۃ واجب ہوگی؟ اور کیا قربانی بھی واجب ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بچی  کی شادی کےلیے جمع شدہ رقم  جب خودیا دوسرے اموالِ زکوۃ سے مل کرنصاب کو پہنچ جائے اور اُس پر سال بھی گزر جائے ، تو زکوۃ واجب ہونے کی دیگر شرائط  پائے جانے کی صورت میں، والدین میں سے جس کی ملکیت میں وہ رقم ہے، اُس  پر  اِس کی زکوۃ واجب ہوگی،کیونکہ بچی کی شادی کے لیے جمع شدہ رقم حاجت اصلیہ میں شمار نہیں ہوگی بلکہ حاجت اصلیہ سے زائدہے اور حاجت اصلیہ سے زائد رقم  جب خود یا دیگر اموال زکوۃ سے مل کر نصاب کو پہنچ جائے اور دیگر شرائط پائی جائیں تو اُس رقم پر زکوۃ واجب ہوتی ہے۔

    نیز والدین میں سےجس کی ملکیت  میں وہ رقم ہے،اوروہ رقم خودیاکسی بھی  طرح کےحاجت سے زائدمال کے ساتھ مل کر(اگرچہ وہ مال ،مال نامی نہ ہو)نصاب کے برابرپہنچے تو اُس پردیگرشرائط پائے جانے کی صورت میں قربانی بھی واجب ہوگی،کیونکہ  مالک نصاب پر دیگر شرائط پائے جانے کی صورت میں قربانی بھی واجب ہوتی ہےاورقربانی میں نصاب کی تکمیل کے لیے مال نامی ہوناشرط نہیں ۔

   تنویر الابصار میں ہے’’وسببہ ملک نصاب حولی تام  فارغ عن دین لہ مطالب من جھۃ العباد وفارغ عن حاجتۃ الاصلیۃ ‘‘ ترجمہ:زکوۃ فرض ہونے کا سبب نصابِ حولی(یعنی  وہ نصاب جس پر سال گزرجائے )کا  مکمل طور پر مالک ہونا ہے، جو ایسے دین سے فارغ ہو، جس کا  لوگوں کی طرف سے مطالبہ ہو اور حاجت اصلیہ سے زائد ہو۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختاروردالمحتار،جلد3،صفحہ208تا212،دار المعرفۃ، بیروت)

   قربانی کے نصاب کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:’’والموسر فی ظاھر الروایۃ من لہ مائتا درھم أو عشرون دینارا أو شئ یبلغ ذلک سوی مسکنہ و متاع مسکنہ و مرکوبہ  و خادمہ فی حاجتہ التی لا یستغنی عنھا‘‘ترجمہ:ظاہر الروایۃ کے مطابق قربانی کے لیے صاحب نصاب وہ شخص ہے جس کے پاس دو سو درہم (یعنی ساڑھے باون تولے چاندی) یا بیس دینار (یعنی ساڑھے سات تولے سونا) ہو  یا حاجت کے علاوہ کسی ایسی چیز کا مالک ہو جو  ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کو پہنچے۔ حاجت سے مراد  رہنے کا مکان،گھریلو سامان ،سواری  اورخادم  ہیں، جن کے بغیر   اس کا گزارہ نہ ہو۔ (فتاوی عالمگیری،جلد5،صفحہ361،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   ہدایہ میں ہے:’’الاضحیۃ واجبۃ علی کل حر مسلم مقیم موسر  فی یوم الاضحی عن نفسہ‘‘ترجمہ: ہر آزاد مسلمان مقیم  شخص پرجو قربانی کے دنوں میں صاحب نصاب ہو،اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ (ہدایہ، جلد4،صفحہ 443،مطبوعہ: ملتان)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم