مجیب: ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری
فتوی نمبر: WAT-999
تاریخ اجراء: 23محرم الحرام1444 ھ/22اگست2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک بیو ہ ہے جس کی کوئی اولاد بھی نہیں
اور نہ ہی کوئی ذریعہ
آمدن ہے لوگوں کے صدقہ و خیرات پر ہی گزارا کرتی ہے اب اگر لوگ
اسے صدقہ و خیرات دیں اور وہ 50 یا 60 ہزار اس کے پاس جمع ہو
جائے تو کیااس پر زکوۃ فرض ہو گی ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر وہ بیوہ شرعی
فقیر ہے یعنی اس کے پاس حاجتِ اصلیہ و قرض کے علاوہ کوئی ایسی چیزیا
مال یا سونا چاندی کرنسی وغیرہ موجود نہیں جس کی قیمت ساڑھے
باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو وہ زکوۃو فطرہ لے سکتی ہے جبکہ
سیدہ ، ہاشمیہ بھی نہ
ہو ، اور تب تک لے سکتی ہے،جب
تک شرعی فقیر ہے، اگر اس کو
کسی نے اتنا مال دے دیا کہ اب
وہ (اوپر ذکرکردہ تفصیل کے مطابق) شرعی فقیر نہیں رہی
تو مزید نہیں لے سکتی۔
اورجہاں تک جمع کردہ رقم کی وجہ سے اس کے اوپرزکوۃ فرض ہونے والامعاملہ ہے تواس کی وضاحت یہ
ہے کہ :
جس
اسلامی تاریخ کو،جس ٹائم میں، نصاب کے برابریعنی
ساڑھے باون تولے چاندی کے برابررقم یاکوئی سابھی قابل زکوۃ
مال نصاب کے برابر اس کی ملکیت
میں جمع ہوجائے،اس اسلامی تاریخ اوروقت کونوٹ کرلے، اگلے سال اسی
اسلامی تاریخ اوراسی ٹائم پراگراس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی
کے برابریااس سے زائدرقم یانصاب کے برابردوسراقابل زکوۃ مال ہو
اتواس پرزکاۃ لازم ہوگی اوراگراسی اسلامی تاریخ
کواسی ٹائم پراس کے پاس نصاب کے
برابررقم یاکسی قسم کاقابل زکوۃ مال نہ ہواتواس پرزکاۃ
لازم نہیں ہوگی ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟