Saal Pura Hone Se Pehle He Advance Zakat Dene Ka Hukum?

سال پورا ہونے سے پہلے ہی ایڈوانس زکوٰۃ دینے کا حکم؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Har-5076

تاریخ اجراء:29ربیع الاول1440ھ/08دسمبر2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ صاحبِ نصاب کا سال مکمل ہونے سے پہلے زکوٰۃ نکالنا کیسا ہے؟

سائل:عبد العزیز(آفندی ٹاؤن،حیدرآباد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     زکوٰۃ سال پورا ہونے سے پہلے دی جا سکتی ہے،لیکن اس میں یہ ضروری ہے کہ  زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ کی پیشگی ادائیگی کرتے وقت نصاب  کا مالک ہو اور سال پورا ہونے پر بھی نصاب کا مالک رہے۔اگر سال پورا ہونے پر اس کے پاس نصاب کی قدر مال نہ رہا یا سال پورا ہونے سے پہلے نصاب مکمل طور پر ہلاک ہو گیا ، تو پہلے دی ہوئی زکوٰۃ نفل ہو جائے گی۔چونکہ زکوٰۃ سال مکمل ہونے سے پہلے بھی دی جا سکتی ہے ، لہٰذا صاحبِ نصاب یوں بھی کر سکتا ہے کہ دورانِ سال تھوڑی تھوڑی کر کے زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور سال مکمل ہونے پر اپنے اوپر واجب ہونے والی مقدار کا حساب لگائے،جو مقدار حاصل ہو ، اگر اس کے برابر زکوٰۃ ادا کر چکا ہو ، تو وہ اپنا واجب ادا کر چکا اور اگر کم ادا کیا ہو ، تو باقی فوراً ادا کرے کہ سال مکمل ہو جانے کے بعد زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر جائز نہیں،ہاں اگر زیادہ ادا کر چکا ہو ، تو اسے اس بات کا اختیار ہے کہ جو زیادہ دیا،اسے آئندہ سال کی زکوٰۃ میں شمار کر لے۔

     تنویر الابصار و درمختار میں ہے:” (و لو عجل ذو نصاب ) زکاتہ ( لسنین او لنصب صح ) لوجود السبب “اور اگر صاحب نصاب نے کئی سالوں کی یا کئی نصابوں کی زکوۃ پہلے ادا کر دی ، تو درست ہے سبب کے پائے جانے کی وجہ سے۔

(تنویر الابصار و الدرالمختار،ج3،ص262، 263،مطبوعہ کوئٹہ)

     ردالمحتار میں ہے:” قولہ(و لو عجل ذو نصاب)قید بکونہ ذا نصاب و فیہ شرطان آخران : ان لا ینقطع النصاب فی اثناء الحول و ان یکون النصاب کاملا فی آخر الحول ۔ ملخصا“ مصنف علیہ الرحمۃ کا قول(اور اگر صاحبِ نصاب نے پہلے دے دی)مصنف علیہ الرحمۃ نے قید لگائی کہ وہ صاحبِ نصاب ہو، اس میں دو شرطیں اور بھی ہیں:یہ کہ دورانِ سال نصاب ہلاک نہ ہو اور یہ کہ سال کے آخر میں نصاب مکمل ہو۔

( رد المحتار علی الدر المختار، ج3، ص262 ، مطبوعہ کوئٹہ)

     رد المحتار ہی میں ہے:” قولہ(لوجود السبب ) ای:سبب الوجوب و ھو ملک النصاب النامی فیجوز التعجیل لسنۃ او اکثر“ مصنف علیہ الرحمۃ کا قول(سبب کے پائے جانے کی وجہ سے)یعنی:وجوب کا سبب اور وہ نصابِ نامی کا مالک ہونا ہے ، لہٰذا ایک سال یا زیادہ کی (زکوٰۃ) پہلے ہی ادا کر دینا جائز ہے۔

(رد المحتار علی الدر المختار،ج3،ص263،مطبوعہ کوئٹہ)

     اسی میں ہے:” فی الولوالجیۃ:لو کان عندہ اربعمائۃ درھم فادی زکاۃ خمسمائۃ ظانا انھا کانت کان لہ ان یحسب الزیادۃ للسنۃ الثانیۃ،لانہ امکن ان یجعل الزیادۃ تعجیلا “ ولوالجیہ میں ہے کہ اگر اس(یعنی زکوٰۃ ادا کرنے والے کے پاس) چار سو درہم ہوں تو اس نے یہ خیال کر کے کہ اس کے پاس پانچ سو درہم ہیں،پانچ سو کی زکوٰۃ ادا کر دی تو اسے اختیار ہے کہ اس زیادتی کو دوسرے سال میں شمار کر لے،کیونکہ وہ اس پر قادر ہے کہ اس زیادتی کو جلدی ادا کرنا قرار دے۔

(رد المحتار علی الدر المختار ، ج3،ص263،مطبوعہ کوئٹہ)

     سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”حولانِ حول(یعنی زکوٰۃ کا سال پورا ہو جانے)کے بعد ادائے زکوٰۃ میں اصلاً تاخیر جائز نہیں،جتنی دیر لگائے گا ، گناہ گار ہو گا۔ہاں پیشگی دینے میں اختیار ہے کہ بتدریج دیتا رہے،سال تمام پر حساب کرے۔اس وقت جو واجب نکلے ، اگر پورا دے چکا بہتر اور کم گیا ہے ، تو باقی فوراً اب دے اور زیادہ پہنچ گیا ، تو اسے آئندہ سال میں مُجرا لے ۔ “

(فتاویٰ رضویہ ، ج10، ص202، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

     صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فر ماتے ہیں:”مالکِ نصاب سال تمام سے پیشتر بھی ادا کر سکتا ہے،بشرطیکہ سال تمام پر بھی اس نصاب کا مالک رہے اور اگر ختمِ سال پر مالکِ نصاب نہ رہا یا اثنائے سال میں وہ مالِ نصاب بالکل ہلاک ہوگیا ، تو جو کچھ دیا ، نفل ہے۔“

(بھار شریعت،ج1،ص891،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

     صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی مزید فر ماتے ہیں:”مالکِ نصاب پیشتر سے چند سال کی بھی زکاۃ دے سکتا ہے، لہٰذا مناسب ہے کہ تھوڑا تھوڑا زکاۃ میں دیتا رہے،ختمِ سال پر حساب کرے،اگر زکاۃ پوری ہوگئی ، فبِہا اور کچھ کمی ہو ، تو اب فوراً دے دے،تاخیر جائزنہیں ، نہ اس کی اجازت کہ اب تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کرے، بلکہ جو کچھ باقی ہے ، کل فوراً ادا کر دے اور زیادہ دے دیا ہے ، تو سالِ آئندہ میں مُجرا کر دے۔“

(بھار شریعت،ج1،ص891،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم