مجیب: مفتی ابو محمد
علی اصغر عطاری
فتوی نمبر: Nor-11552
تاریخ اجراء: 25رمضان
المبارک1442 ھ/08مئی2021 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے
دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید
نے بکر کو نوکری کے حصول کےلیےرشوت دی اور اس رشوت دینے
پر کوئی گواہ نہیں اور عام طور پر بھی رشوت دینے پر گواہ
نہیں بنایاجاتااوریہ رقم واپس بھی نہیں ملنی،اب
یہ تو معلوم ہے کہ بکر رشوت کا مالک نہیں،اس رقم کا اصل مالک زید
ہی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ سال پورا ہونے پرکیازید
پراس رشوت کی زکوۃ نکالنا واجب ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں فقہی طور پر اگرچہ رشوت میں دینے کے باوجود وہ رقم زید کی ملکیت میں
ہے ، لیکن اس رقم کی
زکوۃ نکالنا زید پر لازم نہیں ۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ
رشوت مالِ غصب کے حکم
میں ہے،تو جس طرح غصب میں مال اصل مالک کی ملکیت پر رہتا
ہےاور غاصب اس مال پر غیر شرعی طریقہ پر قابض ہوتا ہے ،
یونہی رشوت کا پیسہ بھی دینے والے کی
ملکیت پر ہوتا ہے اور لینے والااس پر غیر شرعی
طریقہ پر قابض ہوتا ہےاورغصب شدہ مال
کے متعلق جب گواہ نہ ہوں ، تو اس کی زکوۃ نہ غاصب پرلازم
ہوتی ہےکہ یہ اس کا مال ہےہی نہیں،اور نہ ہی اصل
مالک پر، کہ وہ پورے طور پر اس کا مالک نہیں،جبکہ زکوۃ لازم ہونے کے
لیے شرط ہے کہ آدمی مال کاپورے طوپرمالک ہو۔ یہی
حکم رشوت کی زکوۃ کا بھی ہے یعنی پوچھی
گئی صورت میں رشوت کی
زکوۃ نہ رشوت لینے والےپر لازم ہےاورنہ ہی اصل مالک
پر۔واضح رہے کہ یہ حکم صرف زکوۃ لازم ہونے،نہ ہونے سے متعلق
تھا، ورنہ رشوت لینے والے پر لازم ہےکہ جس کا مال ہے،اسے واپس کردے اور رشوت
لینے اور دینے والا دونوں سچی توبہ بھی کریں
۔
رشوت مالِ غصب کے حکم میں ہے اورجومال غصب ہوگیا،آدمی پر اس کی
زکوۃ لازم نہیں ۔ جیساکہ درّمختار میں ہے:”ولا
فی مال مفقود وجدہ بعد سنین وساقط فی بحر استخرجہ بعدھا ومغصوب لا بینۃ علیہ“یعنی : گمشدہ مال جو کئی سال بعد ملا،اس
میں زکوۃ نہیں،یونہی جو مال دریا میں
گرگیا اور بعد میں نکالا تو اس میں بھی زکوۃ
نہیں یونہی مالِ غصب کی بھی زکوۃ نہیں
جبکہ غصب پرگواہ نہ ہوں۔(الدر المختار مع
رد المحتار،ج3،ص218،مطبوعہ کوئٹہ)
زکوۃ لازم ہونے کی ایک شرط پوری
ملکیت ہے اور گواہ نہ ہونے پر غصب
شدہ مال میں ملکیت پوری نہیں ہوتی،لہذا اس کی
زکوۃ بھی لازم نہیں ۔ جیساکہ فتاوی
شامی میں ہے:”وخرج ايضاً نحو المال المفقود
والساقط فی بحر ومغصوب لا بينة عليه
ومدفون فی برية فلا زكاة عليه اذا عاد اليه كما سياتی لانه وان كان
مملوكاً له رقبةً لكن لا يدل عليه “یعنی : گمشدہ
مال،دریابُرد مال،غصب شدہ مال جس پر گواہ نہ ہوں یونہی جنگل
میں دفن شدہ مال،یہ سب مال تمامِ ملک کی قید سےنکل
گئے،لہذاان اموال کے واپس ملنے کی صورت میں ان سب مالوں میں
زکوۃ نہیں ،جیساکہ آگے بھی آئے گا، کیونکہ اگر چہ یہ چیزیں اپنی
ذات میں آدمی کی ملکیت ہیں، مگر ان پر کوئی
دلیل(قبضہ)نہیں۔ (رد المحتار مع
الدرالمختار ،ج3،ص209،مطبوعہ کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی امجد
علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :”زکوۃ
واجب ہونے کے لیےچند شرطیں ہیں:۔۔۔پورے
طور پر اس کا مالک ہویعنی اس پر قابض بھی ہو۔جو مال گم
گیایا دریا میں گر گیایا کسی نے غصب
کرلیااوراس کے پاس غصب کےگواہ نہ ہوں، یا جنگل میں دفن
کردیا تھا اور یہ یاد نہ رہا کہ کہاں دفن کیا تھا، انجان
کے پاس امانت رکھوائی تھی اور یہ یاد نہ رہاکہ وہ کون ہے
یا مدیون نے دَین سے انکار کردیا اور اس کے پاس گواہ
نہیں ، پھر یہ اموال مل گئے ،تو جب تک نہ ملے تھے،اس زمانے
کی زکوۃ واجب نہیں۔“(بھار
شریعت،ج1،حصہ5،ص 875 ، 876 ، 877 ،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
غصب والی رقم کی
زکوۃ غاصب پر بھی لازم نہیں جیسا کہ آپ علیہ
الرحمۃ فرماتے ہیں :”غصب کیے ہوئےکی زکوۃ غاصب پر
واجب نہیں کہ یہ اس کا مال
ہی نہیں، بلکہ غاصب پر یہ واجب ہے کہ جس کا مال ہے،اسے واپس دے۔“
(بھار شریعت،ج1،حصہ5،ص877،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟