مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1548
تاریخ اجراء: 05رمضان المبارک1445 ھ/16مارچ2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میں نے کافی سالوں پہلے ماہ رمضان
میں مسئلہ پوچھاتھاتب مجھ پہ زکوۃ بنتی تھی ۔تب سے
ہی میں ماہ رمضان میں ہی زکوۃ نکالتی ہوں ایسا
کرناکیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زکوۃ کا تعلق رمضان شریف یا رجب المرجب
وغیرہ سے نہیں بلکہ زکوۃ کی ادائیگی نصاب پر
سال پورا ہونے پر فرض ہوتی ہے یعنی جب آپ صاحبِ نصاب ہوئے اور
پھر آپ کے نصاب پر سال گزرا تو اب زکوۃ فرض ہوگی چاہے وہ کوئی
سا بھی مہینا ہو ،سال پورا ہونے کے بعد بلا عذرِ شرعی زکوۃ
کی ادائیگی میں تاخیر جائز نہیں گناہ
ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص شوال المکرم کی پانچ
تاریخ کو صبح دس بجے صاحبِ نصاب ہوا اور پھر اگلے سال اسی مہینے، اسی تاریخ پر صاحبِ
نصا ب ہے تو اس پر زکوۃ فرض ہے۔ لہٰذا اب اسی وقت زکوۃ
نکالنا فرض ہے تاخیر کرنے والا گنہگار ہوگا۔ اسی طرح اگر صاحبِ
نصاب رجب میں ہوا یا رمضان میں تو اسی کا اعتبار
کیا جائے گا۔ البتہ اس مہینے کے آنے سے پہلے اگر زکوۃ ادا
کردی جائے ایڈوانس میں تو اس میں حرج نہیں
جیسے شوال المکرم میں جس پر زکوۃ نکالنا فرض ہے وہ اگر رمضان
میں دینا چاہے تو درست ہے بلکہ رمضان میں فرض پر عمل کرنے والے کو ستَّر گُنا بڑھا کر
ثواب دیا جاتا ہے اس لئے سال پورا ہونے سے پہلے اگر کوئی رمضان
میں ادا کرے تاکہ زیادہ ثواب حاصل کرے تو اچھی بات ہے
لیکن اگر کسی کا سال رجب یا شعبان میں پورا ہورہا ہواور
وہ یہ سوچے کہ ایک دو مہینے بعد رمضان آنے والا ہے میں اس
میں دوں گا تو ایسا کرنا جائز نہیں بلکہ سال پورا ہوتے ہی
فوراً زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟