قسطوں پر خریدے گئے پلاٹ کے مہنگا ہوجانے کی صورت میں زکوٰۃ کا حکم |
مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:Pin-6468 |
تاریخ اجراء:12رجب المرجب1441ھ/08 مارچ2020ء |
دارالافتاء اہلسنت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ زید نے ایک پلاٹ 5 لاکھ روپے کا تجارت کی نیت سے خریدا اور اس کی رقم پانچ سال میں ادا کرنی ہے۔ ایک سال گزرنے پر اس کی مارکیٹ ویلیو7لاکھ ہو گئی،توکیا اس پر زکوٰۃ فرض ہو گی اور ہو گی ،تو کتنی ہو گی؟ نوٹ:سائل نے وضاحت کی ہے کہ پلاٹ متعین ہےاورصرف رجسٹری زید کے نام نہیں ہوئی ،البتہ جب ایجاب و قبول ہوا،توبائع و مشتری اسی پلاٹ پر موجود تھےاوربائع و مشتری(بیچنے خریدنے والے)دونوں کے درمیان یہ طے پایا تھاکہ یہ زمین آپ کی ہے اور میں نے آپ کو اتنے کی بیچی اورزید نے قبول بھی کرلیا تھااور بائع کی طرف سےاسی وقت یہ اختیارات بھی دے دئیے گئے تھے کہ اب آپ اس پر اپنا مکان وغیرہ بنا سکتے ہیں یااس کےعلاوہ جو چاہیں کر سکتے ہیں حتی کہ آپ کو یہ زمین بیچنے کا بھی اختیار ہے۔ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
صورتِ مسئولہ میں جب زید نےتجارت کی نیت سےپلاٹ خریدا،تووہ پلاٹ مالِ تجارت ہوگیااورچونکہ پلاٹ کی خرید وفروخت کے لیے ایجاب و قبول کرتے وقت زیداور پلاٹ کا مالک وہیں موجود تھےاورزید کواس میں مالکانہ تصرفات کا مکمل طورپراختیار بھی دے دیا گیا،توشرعی طور پراس پلاٹ زید کا قبضہ بھی ہوگیا،لہٰذازیدپراُس پلاٹ کی زکوٰۃ سال بہ سال فرض ہوگی،جبکہ قرض اور حاجاتِ اصلیہ (ضرورت کی چیزوں مثلاً رہنے کا مکان،پہننے کے کپڑے وغیرہ)کو نکالنے کے بعد وہ مالکِ نصاب بنتا ہواورزکوٰۃ کی ادائیگی میں قیمتِ خرید کا اعتبار نہیں،بلکہ جس تاریخ زید کےنصاب پرقمری سال مکمل ہورہاہے،اُس دن کی قیمت کااعتبارکیا جائےگا ۔ مثلاًزیدنےوہ پلاٹ 5لاکھ کا خریدا تھا اور جب نصاب پر قمری سال مکمل ہوا،تو اب اُس کی قیمت 7لاکھ ہے،تو7لاکھ کے حساب سے اُس کی زکوٰۃ دینی ہوگی،لیکن چونکہ بندےپرجتناقرض ہو،اُتنے پرزکوٰۃ نہیں ہوتی، لہٰذا اگر زید کے نصاب کاقمری سال مکمل ہوااوراُس پرپلاٹ کی کچھ رقم بصورتِ قسط قرض ہے، لہٰذا جتنی اقساط باقی ہوں،انہیں منہا (مائنس)کر کےجو قیمت بچے، وہ اور دیگراموالِ زکوٰۃ کا حساب کرکےزکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے،یوں ہی اگر آئندہ سال بھی کچھ اقساط باقی ہوئیں، تو جتنی قسطیں رہتی ہوں گی،وہ مالِ زکوۃ سے منہاہوں گی وعلی ھذالقیاس(اسی پراگلے سالوں کی زکوٰۃ کو قیاس کر لیں)۔ کسی قسم کی پراپرٹی مثلاًمکان یا دکان یا پلاٹ وغیرہ جوچیزبھی بیچنے کی نیت سے خریدی جائے،وہ مالِ تجارت کہلاتا ہےاور اُس پرزکوٰۃ فرض ہوگی نیز نصاب کاسال مکمل ہونے پرجو اُس کی قیمت بنتی ہو گی ،زکوٰۃ کی ادائیگی میں اُسی کا اعتبارہوگا۔چنانچہ امام شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمۃ ارشادفرماتے ہیں:’’ان اشتری داراللتجارۃ فحال علیھا الحول زکاھامن قیمتھا‘‘ ترجمہ:اگرکسی نےتجارت کےلئےمکان خریدا،تو سال مکمل ہونےپر وہ شخص اُس کی قیمت کےاعتبار سےاُس کی زکوٰۃ دےگا۔ (المبسوط للسرخسی،ج2،ص207،دارالمعرفۃ،بیروت) زمین یا کسی پلاٹ پر زکوٰۃ ہو گی یا نہیں؟اس طرح کےایک سوال کے جواب میں مفتئ اعظم پاکستان حضرت مولانامحمد وقارالدین قادری علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’کسی چیز کو خریدنےکےوقت اگر یہ ارادہ ہے کہ اس کو فروخت کرے گا،تو وہ مال تجارت ہو جاتاہے،اس کی قیمت پر زکوٰۃ ہوتی ہے۔‘‘ (وقارالفتاوی،ج2،ص388،بزم وقارالدین،کراچی) سال مکمل ہونے پر جو قیمت ہو گی،اُس کا اعتبار ہو گا۔چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’وتعتبر القیمۃ عند حولان الحول‘‘ ترجمہ: (زکوۃ ادا کرنے میں) سال پورا ہونے کے وقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا۔ (فتاوی عالمگیری، ج 1، ص197تا 198، مطبوعہ کراچی) صدرالشریعۃمفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’مالِ تجارت میں سال گزرنے پرجوقیمت ہو گی ،اُس کا اعتبار ہو گا۔‘‘ (بھارشریعت،ج1،حصہ5،ص907،مکتبۃ المدینہ،کراچی) زکوٰۃ سےقرض منہاہوتاہے۔چنانچہ تنویرالابصارمع الدرمیں ہے:’’(فلازکاۃ علی۔۔مدیون للعبدبقدردینہ)فیزکی الزائد ان بلغ نصابا‘‘ترجمہ:جس پر کسی بندےکاقرض ہو،اُس قرض کی مقدارزکوٰۃ نہیں ہوگی۔ہاں!اگرقرض نکال کربچنے والابقیہ مال، نصاب کو پہنچ جائے،تواُس کی زکوٰۃ دینی گی۔ (تنویرالابصارمع الدر،ج3،ص214 تا215،مطبوعہ پشاور) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟