Qarz Maaf Kar Diya, To Kya Iski Zakat Ada Karni Hogi?

قرض معاف کر دیا، تو اس کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی ؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Nor-12738

تاریخ اجراء:07شعبان المعظم1444ھ/28فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے2017میں بکراورخالد کو3سال کے لیےایک ایک لاکھ روپیہ قرض دیا تھا۔تین  سال گزر گئے ،مگر وہ دونوں مالی اسباب نہ ہونے کے سبب قرض ادا نہیں کرسکے۔ اس کو اب 6 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔بکراب بھی قرض ادا کرنے پر قادر نہیں اوربکر شرعی فقیر ہے،جبکہ خالدادائیگی کی قدرت رکھتا ہےاورغنی بھی ہے،لیکن زید نے دونوں کو قرض معاف کردیا ہے،بکر کواس کی ناداری کے سبب اور خالد کو اس سبب کہ خالد اس کا بہنوئی ہے۔زید نے6 سالوں میں ان دو لاکھ روپے کی زکوۃ بھی نہیں نکالی۔ اب معلوم  یہ کرنا ہے کہ آیا زید پر اس رقم کی گزشتہ 6 سالوں کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہے؟اگر  لازم ہے،تو پچھلے سالوں کی زکوۃ نکالنے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟واضح رہے کہ زیدکئی سالوں سےصاحبِ نصاب ہے اورہر سال زکوۃ نکالتا رہتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جورقم زید نے بکر اور خالد کو معاف کی وہ معاف تو ہو گئی، البتہ سائل نے جو یہ سوال کیا ہے کہ معاف کرنے سے قبل تقریبا 6 سال یہ رقم واجب الاداء کے طور پر ان دونوں پر قر ض تھی اور اس دوران زید نے اس رقم پر زکوۃ بھی ادا نہیں کی، تو معاف کردینے پر 6 سال کی زکوۃ  کا حکم کیا ہوگا ؟اس سوا   ل کے جواب میں کچھ تفصیل ہے ۔

   پوچھی گئی صورت میں زیدنےبکر کوجورقم معاف کردی اس رقم کی کسی بھی سال کی زکوۃ نکالنا  زید پر لازم نہیں ہے، کیونکہ مقروض اگر شرعی فقیر ہو، تو اس کو  قرض معاف کردینے سے مال ہلاک ہوجاتا ہے اور وجوبِ زکوٰۃ کے بعد جو مال ہلاک ہوجائے اس پر  زکوٰۃ لازم نہیں رہتی، البتہ زید نےجو رقم خالد کو معاف کی ہے،تو اس کی 6 سالوں کی زکوۃ زید نکالے گا،کیونکہ مقروض اگرغنی یعنی مالدار ہو، تو اس کو قرض معاف کردینا اپنے مال کو خود  ختم کرنا، ایک طرح سے معنوی طور پر خرچ کرنا ہے اور وجوبِ زکوۃ کے بعد جو مال خرچ کیا جائے،اس   کی وجہ سے ماضی کی واجب الاداء  زکوۃ ساقط نہیں ہوتی ۔

   جو رقم آپ نے خالد کو اب معاف کی یعنی ایک لاکھ روپے اس کےپچھلے 6سالوں کی زکوۃ کی ادائیگی کا طریقہ کاریہ ہےکہ پچھلے ہر سال کی زکوۃ کواگلے سال کےپیسوں میں سے مائنس کیا جائے گا،مائنس کرنے کے بعد جو رقم بچ جائے گی،اگلے سال اتنے پر زکوۃ لگے گی مثلاً:

   پہلے سال ایک لاکھ روپے کی زکوۃ ڈھائی فیصد کےحساب سے2500روپے بنی،اس زکوۃ کواگلے سال میں مائنس کیا، تواگلے سال کی رقم 97500باقی رہ گئی،لہذا97500 کےحساب سےدوسرے سال کی زکوۃ2437.5بنی،تیسرے سال کی زکوۃ95062.5کے حساب سے 2376.56بنی،چوتھے سال کی زکوۃ 92685.94کےحساب سے2317.14بنی،پانچویں سال کی زکوۃ90367.86کےحساب سے 2259.19بنی اورچھٹے سال کی زکوۃ 88108.67کے  حساب سے2202.71بنی۔

   آسانی کے لیے اس چارٹ کی روشنی میں واجب الادا ء  زکوۃ کی  تفصیل سمجھیں،  اس کی مدد سے 2018 سے 2023 کے درمیان 6 سالوں کا حساب باآسانی لگایا جا سکتا ہے ۔زکوۃ میں چونکہ چاند کے حساب سے سال کو شمار کیا جاتا ہے، اس لیے چارٹ میں قمری حساب کے اعتبار سے سال لکھے گئے ہیں۔

سال

قمری سن

قابلِ زکوۃ رقم

زکوۃ

1

1439ھ

1لاکھ روپے

2500روپے

2

1440ھ

97500 روپے

2437.5 روپے

3

1441ھ

95062.5 روپے

2376.56روپے

4

1442ھ

92685.94 روپے

2317.14روپے

5

1443ھ

90367.86 روپے

2259.19روپے

6

1444ھ

88108.67 روپے

2202.71روپے

کل واجب الادا زکوۃ:        14093.1روپے

   بحرالرائق اور درّمختارمیں ہے، واللفظ للبحر:اذا ابرا المديون منه بعد الحول فانه لا زكاة عليه فيه سواء كان ثمن مبيع او قرضا او غير ذلك  صرح به قاضی خان فی فتاويه لكن قيده فی المحيط بكون المديون معسرا اما لو كان موسرا فهو استهلاك وهو تقييد حسن يجب حفظه“یعنی جب دائن مدیون کوسال پورا ہونے کے بعد دین سے بری کردے ،تو دائن پر اس دین کی  زکوۃ لازم نہیں ہوگی،خواہ وہ دین مبیع کی قیمت ہویا قرض ہو یا اس کے علاوہ کسی اورقسم کادین  ہو۔امام قاضی خان علیہ الرحمۃ نے اپنے فتاوی میں اس کی صراحت کی ہے۔لیکن محیط میں مدیون کو معسر یعنی تنگدست کے ساتھ مقید کیا ہے،البتہ اگر مدیون غنی ہو، تو اس کودین معاف کرنا،مال کو ہلاک کرناکہلائے گا۔(یعنی اس صورت میں اس پر زکوۃ لازم ہوگی)اور یہ معسر والی  قیداچھی  ہے، اس کو یاد کرلینا لازم ہے۔ (بحر الرائق،ج2،ص225،مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

   استہلاک یعنی مال ہلاک کرنے کی صورت میں زکوۃ ساقط نہیں ہوگی، جبکہ ہلاک یعنی مال خود ختم ہوجائے ،اس صورت میں زکوۃ ساقط ہوجائے گی،جیساکہ درمختار میں ہے:”ولافی هالك بعد وجوبها۔۔۔ لتعلقها بالعين لا بالذمة وان هلك بعضه سقط حظه۔۔۔ بخلاف المستهلك بعد الحول لوجود التعدی“یعنی وجوب زکوۃ کے بعد ہلاک ہوجانے والے مال پر زکوۃ نہیں، کیونکہ زکوۃ کا تعلق اس مال سے تھا نہ کہ ذمہ کے ساتھ اور اگر مال کا کچھ حصہ ہلاک ہوا، تو اس کے مطابق زکوۃ ساقط ہوگی، البتہ اگر سال گزرنے کے بعدمال ہلاک کیا ،توزکوۃ ساقط نہیں ہوگی، کیونکہ یہاں تعدی پائی گئی ہے۔

   مال دار قرض دار کوقرض معاف کرنااستہلاک ہے،جیساکہ درمختار کی مذکورہ عبارت کے تحت فتاوی شامی میں ہے:”ومن الاستهلاك ما لو ابرا مديونه الموسر“یعنی مال دارمدیون کو دین معاف کرنا بھی استہلاک کی ایک صورت ہے۔(الدرّ المختار ورد المحتار،ج3،ص207،209،مطبوعہ ملتان)

   قرض معاف کرنے پر زکوۃ لازم ہونے سے متعلق شیخ الاسلام والمسلمین امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃارشاد فرماتے ہیں:” جبکہ مال پر سال گزرگیا اور زکوٰۃ واجب الاداء ہوچکی، اور ہنوز نہ دی تھی کہ مال کم ہوگیا، یہ تین حال سے خالی نہیں کہ سبب کمی استہلاک ہوگا یا تصدّق یا ہلاک۔استہلاک کے یہ معنی کہ اس نے اپنے فعل سے اُس رقم سے کچھ اتلاف، صرف کر ڈالا، پھینک دیا، کسی غنی کو ہبہ کر دیا۔ اور یہاں تصدّق سے یہ مراد کہ بلا نیتِ زکوٰۃکسی فقیر محتاج کو دے دیا۔ اور ہلاک کے یہ معنی کہ بغیر اس کے فعل کے ضائع و تلف ہوگیا، مثلاً:چوری ہوگئی یا زر و زیور کسی کو قرض و عاریت دے دیا، وہ مکر گیا اور گواہ نہیں یا مر گیا اور ترکہ نہیں یا مال کسی فقیر پر دین تھا، مدیون محتاج کو ابراکر دیا کہ یہ بھی حکم  ہلاک میں ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج10،ص90،91،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   اسی سےآگےاستہلاک اورہلاک کی صورت میں زکوۃ کےحکم سے متعلق آپ علیہ الرحمۃارشاد فرماتے ہیں:”اب صورتِ اُولیٰ یعنی استہلاک میں جس قدر  زکوٰۃ سال تمام پر واجب ہو لی تھی ،اُس میں سے ایک حبّہ نہ گھٹے گا، یہاں تک کہ اگر سارا مال صَرف کردے اور بالکل نا دار محض ہوجائے تاہم قرضِ زکوٰۃ بدستورہے۔۔۔رہی صورتِ ثالثہ یعنی ہلاک، اس میں بالاتفاق کم یا بہت جس قدر تلف ہو بحساب  اربعہ  متناسبہ اُتنے کی زکوٰۃ ساقط ہوگی اور جتنا باقی رہے ،اگر چہ نصاب سے بھی کم، اُتنے کی زکوٰۃ باقی۔“    (ایضاً،ص95،91)

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”سال تمام کے بعد مالک نصاب نے نصاب خود ہلاک کر دی، تو زکاۃ ساقط نہ ہوگی، مثلاً: جانور کو چارا، پانی نہ دیا گیا کہ مر گیا زکاۃ دینی ہوگی۔یو ہیں اگر اُس کا کسی پر قرض تھا اور وہ مقروض مالدار ہے، سال تمام کے بعد اس نے معاف کر دیا، تو یہ ہلاک کرنا ہے، لہٰذا زکاۃ دے اور اگر وہ نادار تھا اور اس نے معاف کردیا ،تو ساقط ہوگئی۔(بھار شریعت،ج1،حصہ4،ص899،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم