مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-2367
تاریخ اجراء: 03رجب المرجب1445
ھ/15جنوری2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ کیا ہم پرانے زمانے کے سکے یعنی
کوائن شوق کے طور پر خرید سکتے ہیں ؟ اگر خرید سکتے ہیں
تو اس پر زکوۃ کا کیا حکم ہو گا؟ مثال کے طور پر اکبر بادشاہ
کے دور کا ایک روپیہ
کا چاندی کا سکہ 4000 روپے کا خریدا ، اس میں جتنے گرام
چاندی ہے اس چاندی کی قیمت آج 1500
ہے تو رہنمائی فرمائیں کہ اس سکے کی زکوۃ چاندی کی
قیمت کے حساب سے دیں گے یا
جتنے کا آج ہم نے خریدا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر
آپ کے پاس یہ کوائن اتنی
مقدار میں موجود ہیں کہ یہ خود
یا دیگر اموال زکوۃ کے ساتھ مل کر زکوۃ
کے نصاب کو پہنچ جائیں تو اس کی زکوٰۃ کی
ادائیگی کے دو طریقے
ہیں:
() اگر تو
چاندی سے اس چاندی
والے کوائن کی زکوۃ ادا کرنا چاہیں تو پھر وزن کا اعتبار ہو گا ۔
() اور اگرچاندی کے علاوہ کسی
اورجنس مثلا پیسوں سے زکوۃ
ادا کرنا چاہیں تو پھر اس دن
کی مارکیٹ ویلیو
کے حساب سے زکوۃ ادا کرنا ہو گی۔
امام
اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :”سال تمام پر بازار
کے بھاؤسے جو قیمت ہو اس کا لحاظ ہوگا، اگر مختلف جنس سے زکوٰۃ
دینا چاہیں مثلاًسونے کی زکوٰۃ میں
چاندی ،ورنہ سونے چاندی کی خود اپنی جنس سے
زکوٰۃ دیں تو وزن کا اعتبار ہے قیمت کا کچھ لحاظ نہیں۔“(فتاوی رضویہ جلد10 ،صفحہ 138 ، رضا
فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟