Parchun Ki Dukan Wala Zakat Kaise Nikale ?

پرچون کی دکان والا زکوۃ کس طرح نکالے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7779

تاریخ اجراء: 03 شعبان المعظم 1443ھ/07 مارچ 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

  کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ ہماری پرچون کی دکان ہے، اُس میں بہت ساری چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، مثلا:سوئیاں،کامن پنیں،کیل ،موتی وغیرہا۔ اُن کاحساب لگانااورگننامشکل ہے کہ یہ کتنی ہیں، ہاں بطورِ دکاندارایک اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ یہ اتنے کی ہوں گی،توکیاجن چیزوں کاگنناممکن ہے ،انہیں گن لیں اورجن کاحساب مشکل ہے اُن کااندازہ کرلیں اورزیادہ سے زیادہ اندازہ کرکے زکوۃ اداکردیں؟تویہ جائزہوگایانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

  زکوۃ نکالتے ہوئے اصل مال کی قیمت ومالیَّت معلوم ہونی چاہیے تا کہ اُسی حساب سے زکوٰۃ کا فریضہ ادا کیا جائے اور جہاں تک بالخصوص مالِ تجارت کی زکوٰۃ کا تعلق ہے، تو کسی بھی تاجر کے لیے اپنے مالِ تجارت کی مالیَّت کا حساب لگانا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے، ہاں البتہ اگر سامانِ تجارت ایسا ہے کہ جس کا حساب لگانا واقعی انتہائی دشوار ہے، جیسا کہ سوال میں کچھ چیزوں کا ذکر کیا گیا، تو ایسی اشیاء کے لیے ظنِ غالب سے مالیَّت کا حساب لگایا جائے اور زکوٰۃ دیتے ہوئے ظنِ غالب سے تھوڑا زیادہ مال کا حساب رکھ کر زکوٰۃ دی جائے ،تا کہ فرض کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی کا شبہ بھی باقی نہ رہے۔

  فتاویٰ اہلِ سنت(احکامِ زکوٰۃ) میں سوال ہوا کہ ہمارا کٹ پیس(Cut Piece) کا کاروبار ہے اور دکان پر بہت زیادہ مال ہے، جس کی پیمائش نہیں کر سکتے، تو اُس کی زکوٰۃ کس طرح ادا کی جائے؟ اگر زکوٰۃ اندازے سے ادا کی جائے، تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ جواب دیا گیا: ”شرعاً جن اموال پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، اُن میں مالِ تجارت بھی ہے اور اس مالِ تجارت پر زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے اس مال کی مالیت کا علم ہونا ضروری ہے اور کسی بھی تاجر کے لیے اپنے مالِ تجارت کی مالیت کا حساب لگانا کوئی مشکل امر نہیں۔ظنِ غالب سے اِس کا حساب لگائیں اور اندازے سے تھوڑا زیادہ ہی لگا لیں تا کہ فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ رہ جائے، پس آپ کی دکان میں جتنا بھی مالِ تجارت(یعنی کپڑا وغیرہ) ہے، اُس کی مالیت کا حساب لگائیں اور اگر آپ پر کچھ دَین(قرض) ہو ،تو وہ اُس میں سے مِنْہا (مائنس)کر کے جو باقی بچے، اُس پر آپ کو زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔“ (فتاویٰ اھلِ سنت،مالِ تجارت سے متعلق مسائلِ زکوٰۃ، صفحہ 328، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم