مجیب:مفتی محمد حسان عطاری
فتوی نمبر:WAT-3077
تاریخ اجراء:13ربیع الاول1446ھ/16ستمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مستحقِ زکوة کو پیسوں کی بجائے نیو موبائل لے کر دیا جا سکتا ہے؟ اگر دیا جا سکتا ہے تو موبائل خریدتے وقت زکوة کی نیت کی جائے گی یا مستحق کو موبائل دیتے وقت؟اگر تحفہ کہہ کر دیا جائے تو دل میں اس وقت نیت کا ہونا ضروری ہے؟ شرعی رہنمائی فرما دیں تاکہ زکوة ادا ہو سکے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں ! مستحق شخص کو زکوۃ کی نیت سے نیو موبائل خرید کر اس کا مالک بنانے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی اور دل میں زکوۃ کی نیت کرنا ضروری ہے اگرچہ زبان سے تحفہ کہہ کر دیا جائے، اسی طرح فی نفسہ زکوۃ کی نیت کرنا ضروری ہے ، چاہے موبائل خرید کر علیحدہ کرتے وقت نیت کی جائے یا شرعی فقیر کو موبائل کا مالک بناتے وقت ، دونوں صورتیں درست ہیں، البتہ اگر زکوۃ کی نیت کیےبغیر ،مستحق زکوۃ کو موبائل کا مالک کردیا تو اب نیت اس وقت تک درست ہوگی جبکہ موبائل اس شخص کی ملکیت میں باقی ہو ۔ یہ یاد رہے کہ جتنے کا موبائل مارکیٹ ریٹ کے اعتبارسے ہوگا اتنی ہی رقم زکوٰۃ میں ادا ہوگی اوپر کے خرچے اس میں شامل نہیں ہوں گے ۔
زکوۃ میں سامان دینے کے متعلق فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :"زکوٰۃ میں روپے وغیرہ کہ عوض بازار کے بھاؤ سے اس قیمت کا غلّہ مکّا وغیرہ محتاج کو دے کر بہ نیت زکوٰۃ مالک کردینا جائز و کافی ہے ، زکوٰۃ ادا ہوجائے گی،مگر جس قدر چیز محتاج کی ملک میں گئی ،بازار کے بھاؤ سے جو قیمت اس کی ہے وہی مجرا ہوگی،بالائی خرچ محسوب نہ ہوں گے۔"( فتاوی رضویہ ،ج 10، ص 69 ، 70 ، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوی اہلسنت(احکام زکوۃ) میں ہے ’’اگر کسی مستحق زکوۃ کو بنیت زکوۃ کپڑے، کتابیں ، دوائیں یا گھر یلو راشن وغیرہ لے کر دے دیا اور اسے ان اشیاء کا مالک بھی کر دیا تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔"(فتاوی اھلسنت(احکام زکوۃ) ،ص 210 ، مکتبۃ المدینہ )
فتاوی ہندیہ میں ہے"ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح هكذا في البحر الرائق" ترجمہ : جس نے کسی مسکین کو ہبہ یا قرض بول کر دراہم دیئے اور نیت زکوۃ کی کرتا ہے تو اس کی زکوۃ ادا ہوجائے گی اور یہی صحیح ہے اسی طرح بحر الرائق میں ہے ۔( الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الزکاۃ ، ج 1 ،ص 171 ، دار الفکر ،بیروت)
زکوۃ کی نیت کے متعلق بہار شریعت میں صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’ زکوۃ دیتے وقت یا زکوۃ کے لیے مال علیحدہ کرتے وقت نیت زکوۃ شرط ہے۔ نیّت کے یہ معنی ہیں کہ اگر پوچھا جائے تو بلا تامل بتا سکے کہ زکوۃ ہے۔۔۔دیتے وقت نیّت نہیں کی تھی، بعد کو کی تو اگر وہ مال فقیر کے پاس موجود ہے یعنی اس کی ملک میں ہے تو یہ نیّت کافی ہے ورنہ نہیں۔"(بہار شریعت ، ج 1 ،حصہ 5 ،ص 886 ، مکتبۃ المدینہ )
اسی طرح فتاوی اہلسنت (احکام ِزکوۃ) میں ہے :’ ’اگر زکوۃ دے رہے ہیں تواس میں زکوۃ دینے کی نیت فی نفسہ ضروری ہے، چاہے فقیر کو دیتے وقت کی ہو یا جب زکوۃ کے لیے مال علیحدہ کیا ہوا س وقت کی ہو ،ہاں زکوۃ دینے کے بعد ایک صورت میں نیت ہو سکتی ہے وہ یہ کہ دینے کے بعد یہ نیت کی کہ یہ زکوۃ ہے اوروہ مال فقیر کے پاس موجود ہے تو بھی ادا ہو جائیگی اور اگر فقیر کو زکوۃدے چکے اوراس نے اس کو خرچ کر دیا ا ب نیت کی تو زکوۃ ادانہ ہوگی ۔ "(فتاوی اھلسنت(احکام زکوۃ ) ، ص 158 ، مکتبۃ المدینہ )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟