Malik e Nisab Bewah Ko Zakat Dena Kaisa ?

صاحبِ نصاب بیوہ کی زکوٰۃ کی رقم سے مدد کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12275

تاریخ اجراء:     02 ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/02جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بیوہ عورت ہے اسکا کوئی کمانے والا نہیں ہے اور  نہ ہی اس کے بیٹا ہے،  اس کے پاس اپنا ذاتی مکان بھی نہیں ہے۔ البتہ اس بیوہ کی ملکیت میں ڈھائی تولہ سونا موجود ہے جو کہ اس کی حاجت اور قرض سے زائد ہے، اس کے علاوہ اس کے  پاس چاندی یا کوئی رقم وغیرہ نہیں ہے کہ جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرسکے۔

   مفتی صاحب  آپ سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس صورت میں  کیا زکوٰۃ کی رقم سے اس بیوہ کی مدد کی جاسکتی ہے؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعتِ مطہرہ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے ایک مالی معیار مقرر کیا ہے جس میں حکمت یہ ہے کہ ان لوگوں کی مدد  ہو سکے جو انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مستحقِ زکوٰۃ (شرعی فقیر)ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ شخص ہاشمی  یاسیدنہ ہو، اور نصاب کا مالک بھی نہ ہو یعنی قرض اور حاجت اصلیہ میں مشغول تمام اموال کو نکال کر اس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت برابر کوئی سامان، رقم وغیرہ موجود نہ ہو۔ لہذا جو شخص اس معیار پر پورا نہ اترتا ہو اگرچہ اسے گزر بسر میں کتنی ہی تنگی کاسامنا ہو، اسے کما کر دینے والا کوئی نہ ہو، جب بھی زکوٰۃ کی رقم سے اس کی مدد نہیں کرسکتے کہ شرعاً وہ زکوٰۃ وصول کرنے کا مستحق ہی نہیں اور نہ ہی اس صورت میں دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہوگی ۔

   اب جبکہ صورتِ مسئولہ میں وہ بیوہ صاحبِ نصاب ہے کہ اس کی ملکیت میں حاجت اور قرض کے علاوہ ڈھائی تولہ سونا موجود ہے اور اتنے سونے کی مالیت فی زمانہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت سے کہیں زائد ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اس بیوہ کو زکوٰۃ دینا شرعاً جائز نہیں۔

   ہاں! اتنا ضرور ہے کہ ممکنہ صورت میں صدقاتِ واجبہ  کے علاوہ دیگر نفلی صدقات سے اس بیوہ کی ضرور مدد کی  جائے تاکہ اس کے گزر بسر میں آسانی ہوسکے اور وہ احسن انداز سے اپنے معاملات کو سرانجام دے سکے۔ البتہ اگر اس کی کوئی اولاد  بالغ ہو اور وہ مستحق زکوۃ ہو تو اس کو زکوۃ دی جا سکتی ہے ۔

   مالکِ نصاب شخص کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية ، وهي مسكنه ، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه ، ومركبه وسلاحه ، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافيترجمہ : ” جو شخص مالکِ نصاب ہو یعنی اس کی ملکیت میں مال ہو جیسا کہ دینار یا دراہم یا چرائی کے جانور یا تجارت کا سامان ہو یا تجارت کے علاوہ  کوئی ایسا سامان ہو جوپورے سال  اس کی حاجت سے زائد رہا ہو جیسا کہ زاہدی میں مذکور ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ مال اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو، حاجتِ اصلیہ سے مراد راس کا ہائشی  گھر، امورِ خانہ داری کا سامان، کپڑے، خادم، سواری، ہتھیار وغیرہ ہیں، اس میں نماء کی بھی شرط نہیں کہ مالِ نامی کا ہونا زکوٰۃ واجب ہونے کے لیے ضروری ہے زکوٰۃ کی وصولی حرام ہونے کے لیے اس کی شرط نہیں، جیسا کہ کافی میں مذکور ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب الزکاۃ، ج 01، ص 189،مطبوعہ پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”جو شخص مالک نصاب ہو (جبکہ وہ چیز حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو یعنی مکان، سامان خانہ داری، پہننے کے کپڑے، خادم، سواری کا جانور، ہتھیار،اہلِ علم کے لیے کتابیں جو اس کے کام میں ہوں کہ یہ سب حاجتِ اصلیہ سے ہیں اور وہ چیز ان کے علاوہ ہو، اگرچہ اس پر سال نہ گزرا ہو اگرچہ وہ مال نامی نہ ہو) ایسے کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔ اور نصاب سے مرادیہاں یہ ہے کہ اُس کی قیمت دو سو 200درہم ہو، اگرچہ وہ خود اتنی نہ ہو کہ اُس پر زکاۃ واجب ہو مثلاً چھ تولے سونا جب دو سو 200درہم قیمت کا ہو تو جس کے پاس ہے اگرچہ اُس پر زکاۃ واجب نہیں کہ سونے کی نصاب ساڑھے سات تولے ہے مگر اس شخص کو زکاۃ نہیں دے سکتے یا اس کے پاس تیس بکریاں یا بیس گائیں ہوں جن کی قیمت دو سو 200درہم ہے اسے زکاۃ نہیں دے سکتا، اگرچہ اس پر زکاۃ واجب نہیں یا اُس کے پاس ضرورت کے سوا اسباب ہیں جو تجارت کے لیے بھی نہیں اور وہ دو سو 200درہم کے ہیں تو اسے زکاۃ نہیں دے سکتے۔ “ ( بہار شریعت ، ج 01، ص 929-928، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”زکوٰۃ کِن مصارف میں دینا جائز ہے؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”مصرفِ زکوٰۃ ہر مسلمان حاجتمند ہے جسے اپنے مال مملوک سے مقدار نصاب فارغ عن الحوائج الاصلیہ پر دسترس نہیں بشرطیکہ نہ ہاشمی ہو۔۔۔۔ بالجملہ مدار کا ر حاجتمند بمعنی مذکور پرہے،تو جو نصاب مذکور پر دسترس رکھتاہے ہر گز زکوٰۃ نہیں پا سکتا۔ (فتاوٰی رضویہ،ج10،ص110-109،رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

   مفتی وقار الدین  علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”ایک شخص جس کی ماہانہ انکم اتنی نہیں کہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرسکے۔ تو کیا ایسے شخص کو مالِ زکوٰۃ دیا جاسکتا ہے جبکہ اس کے پاس سونا چاندی اور نقدی ملا کر نصاب پورا ہوجاتا ہے؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”جس شخص کے پاس سونا چاندی اور نقدی روپے ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پونجی ہوجائے وہ صاحبِ نصاب ہے۔ اس پر خود زکوٰۃ دینا فرض ہے ۔ لہذا ایسے شخص کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ (وقار الفتاوٰی،ج02،ص416،بزم وقار الدین)

   فتاویٰ اہلسنت کتاب الزکوٰۃ میں اس حوالے سے مذکور  ہے:”زکوٰۃ لینے کا حقدار شرعی فقیر ہے شریعتِ مطہرہ نے شرعی فقیر ہونے کا ایک خاص معیار بیان فرمایا ہے چنانچہ مستحقِ زکوٰۃ ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ بالغ شخص حاجتِ اصلیہ سے زائد کم از کم مقدارِ نصاب کا مالک نہ ہو نصاب کی مقدار ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم ہے۔۔۔۔لہذا اگر کسی کے پاس حاجتِ اصلیہ سے زائد کپڑے ہوں یا زائد اشیاء ہوں مثلاً ٹی وی ہو اور ان کی مشترکی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم کے برابر پہنچ جائے تو ایسا شخص زکوٰۃ کا مستحق نہیں۔ ۔۔۔تو جو مستحق ہو  اس کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، اگر مستحقِ زکوٰۃ ہونے کی شرائط نہ پائی گئیں تو دینے والے کی زکوٰۃ ہی ادا نہیں ہوگی۔(فتاوٰی  اہلسنت کتاب الزکوٰۃ،  ص 448-447، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً و ملخصاً)

 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم