Mal e Tijarat Ki Zakat Mein Konsi Qeemat Ka Aitebar Hoga ?

مالِ تجارت کی زکوٰۃ میں کون سی قیمت کا اعتبار ہوگا؟

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

تاریخ اجراء:     ماہنامہ فیضان مدینہ جون 2022

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے  بارے میں کہ میری دکان ہے ، ایک چیز میں پانچ روپے میں خرید کر دس روپے میں بیچتا ہوں۔ اب پیچھے اس کا ریٹ بڑھ کر آٹھ روپے ہوگیا ہے تو یہ ارشاد فرمائیں کہ اب میں کس ریٹ سے زکوٰۃ کا حساب لگاؤں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زکوٰۃ کا حساب لگاتے وقت نہ ہی وقتِ خریداری کی قیمت کا اعتبار  ہوتا ہے اور نہ ہی بیچنے کے وقت کی قیمت کا  اعتبار ہوتا ہے بلکہ جس دن زکوٰۃ کا سال پورا ہورہا ہو ، اس دن کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے اس مال کی جو مالیت ہے اس پر  زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے۔

   پوچھی گئی صورت میں جب اس چیز کی مارکیٹ ویلیو بڑھ گئی ہے تو اب موجودہ  مارکیٹ ویلیو کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔

   صدرُالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں : مالِ تجارت میں سال گزرنے پر جوقیمت ہوگی اس کا اعتبار ہے۔ “ (بہارِ شریعت ، 1 / 907)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم