Maal e Tijarat Ke Badle Istemal Ki Cheez Khareed Len To Zakat Ka Hukum

مال تجارت کے عوض استعمال کی اشیاء خرید  لیں تو زکوۃ کا حکم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13355

تاریخ اجراء:16 شوال المکرم1445ھ/25 اپریل 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   میری بازار میں بچوں کے ریڈی میڈ کپڑوں کی دوکان ہے، مجھے اپنے گھر میں کچھ پردوں کی ضرورت ہے، میں نے کیش رقم کے بجائے بچوں کے ریڈی میڈ سوٹ کے بدلے پردے کی دوکان سے پردے خرید لئے  جو ابھی گھر میں زیرِ استعمال ہیں۔  معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ پردے تو میں نے ان کپڑوں کے بدلے خریدے ہیں جو میں نے بیچنے کی نیت سے لئے تھے، جب میں اپنے تجارتی مال کی زکاۃ کی ادا کروں گا، توکیا ان پردوں  پر بھی زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا ؟ حالانکہ یہ میں نے بیچنے کی نیت سے نہیں خریدے بلکہ گھریلو استعمال کے لئے خریدے ہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سونا، چاندی ، کرنسی اور سائمہ جانوروں کے علاوہ کوئی بھی مال ہو، وہ مالِ زکاۃ میں اس وقت شمار ہوگا جب اس کو خریدتے وقت  صراحتاً یا دلالۃًتجارت کی نیت ہو، اگر تجارت کی نیت نہیں بلکہ استعمال کی نیت ہے، تو پھر وہ خریدی گئی چیز مالِ زکاۃ میں شمار نہیں ہوگی اگر چہ وہ چیز مالِ تجارت ہی کے بدلے خریدی گئی ہو۔پوچھی گئی صورت میں جب آپ نے  یہ پردےخریدے اس وقت آپ کی نیت تجارت کی نہیں تھی بلکہ یہ نیت تھی کہ یہ گھریلو استعمال کے لئے ہیں اگرچہ مالِ تجارت(یعنی بیچنے کے لئے خریدے گئے ریڈی میڈ سوٹوں) کے بدلے ہی خریدے ہیں ، تو اس صورت میں وہ پردے مالِ زکاۃ میں شمار نہیں ہوں گے اور ان پردوں پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔

   درمختار میں ہے:” الاصل ان ما عدا الحجرین والسوائم انما یزکی بنیۃ التجارۃ“یعنی اصول یہ ہے کہ سوناچاندی اور سائمہ جانوروں  کے علاوہ جو چیزیں ہوں  ان کی  زکاۃ  اس وقت ادا کی  جائے گی جب وہ  تجارت کی نیت کے ساتھ  خریدی ہوں۔(الدر المختار مع رد المحتار، جلد 3،صفحہ 230، مطبوعہ:کوئٹہ)

   مبسوط میں ہے:”لأن نصاب الزكاة المال النامي ومعنى النماء في هذه الأشياء لا يكون بدون نية التجارة “یعنی اس وجہ سے کہ زکاۃ کا نصاب مالِ نامی ہے اور ان اشیا میں نمو کا معنی نیتِ تجارت کے بغیر نہیں پایا جاتا۔(المبسوط، جلد 2،صفحہ 198،مطبوعہ:بیروت)

   درمختار میں ہے:”نية التجارة في العروض إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء ، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتصير للتجارة بلا نية صريحا “یعنی عروض میں نیتِ تجارت یا تو صراحتاً ہوگی اورنیتِ تجارت کا عقدِ تجارت سے ملا ہوا ہونا ضروری ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا یا  نیتِ تجارت دلالۃً ہوگی اس طرح کہ سامانِ تجارت کے بدلے کوئی چیز خریدی یا صراحتاً نیت  تجارت کئے بغیر اپنا وہ گھر جو تجارت کے لئے ہے اس کو سامان کے بدلے اجارہ پر دے دیا ۔(الدر المختار مع الشامی، جلد3، صفحہ 221، مطبوعہ:کوئٹہ)

   بدائع الصنائع میں ہے:” لو اشترى عينا من الأعيان ونوى أن تكون للبذلة والمهنة دون التجارة لا تكون للتجارة سواء كان الثمن من مال التجارة أو من غير مال التجارة؛ لأن الشراء بمال التجارة إن كان دلالة التجارة فقد وجد صريح نية الابتذال ولا تعتبر الدلالة مع الصريح بخلافها “یعنی اگر کسی نے کوئی چیز خریدی اور نیت اس کو خرچ کرنے واستعمال کرنے کی ہے، تجارت کی نہیں، تو وہ چیز تجارت کے لئے نہ ہوگی،  خواہ ثمن مالِ تجارت سے دیا ہو یا مالِ تجارت کے علاوہ سے دیا ہو، کیونکہ مالِ تجارت کے بدلے خریدنا اگر دلالۃً تجارت  ہی کے لئے ہو، تو استعمال کرنے کی نیت صراحتاً موجود ہے اور عدمِ تجارت کی صریح نیت کی موجودگی میں  دلالت کا اعتبار نہیں۔(بدائع الصنائع، جلد2،صفحہ 12، مطبوعہ:بیروت)

   وقار الفتاوی میں ہے:”کسی چیز کو خریدنے کے وقت اگر یہ ارادہ ہے کہ اس کو فروخت کرے گا ، تو وہ مالِ تجارت ہوجاتا ہے اس کی قیمت پر زکوٰۃ ہوتی ہے اور اگر خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہ تھی ، تو اس کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں ہوتی“(وقار الفتاوی، جلد 2،صفحہ 388، بزمِ وقار الدین، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم