مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-2745
تاریخ اجراء: 19ذیقعدۃالحرام1445
ھ/28مئی2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اعوان کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے،لہذا ہم نے لا علمی کی بنا پر اُنہیں زکوۃ دیدی،تو
کیا ہماری زکوۃ
ادا ہو گئی یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی
صورت میں آپ کی زکوۃ ادا نہ ہوئی،کیونکہ اعوان ہاشمی ہوتے ہیں اور ہاشمی مصرفِ زکوۃ نہیں،لہذا اُنہیں
زکوٰۃ دینا ہرگز
جائز نہیں۔ رہی بات یہ کہ آپ کو معلوم نہیں تھا کہ اعوان کو
زکوۃ نہیں دے سکتے ،اور آپ نے اپنی لا علمی کی بنا پر اُنہیں زکوۃ دے دی ،تو یاد رہے کہ دار الاسلام میں شرعی مسائل
سے لاعلم ہونا کوئی شرعی عذر
نہیں،اگر کوئی لاعلمی کے سبب
غلط مصرف میں زکوۃ ادا کردے ،تو بھی اس کی زکوۃ
ادا نہ ہوگی ۔لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ پر دوبارہ سے زکوۃ
کی ادائیگی لازم ہوگی۔
اعوان ہاشمی ہوتے ہیں،جیسا کہ فتاوی
اہلسنت احکام ِ زکوٰۃ میں سوال ہوا کہ ہمارا شجرہ نسب
حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم
کے بیٹے حضرت عون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے
تو کیا ہمیں زکوۃ لینا حرام ہو گا ؟ اس کے جواب میں
فرمایا:’’ آپ جب حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کی اولادسے ہیں تو ہاشمی
ہوئے کیونکہ حضرت علی ہاشمی ہیں اور تمام بنی ہاشم
پر زکوۃ وصدقہ واجبہ لینا حرام ہے۔“ ( فتاوی اہلسنت احکام ِ زکوۃ، صفحہ
426، مکتبۃ المدینہ)
ہاشمی مصرفِ زکوۃ
نہیں ،لہذا اُنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے ،جیسا
کہ فتاوی عالمگیری میں ہے :”ولا
يدفع إلى بني هاشم ، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد
المطلب كذا في الهداية“ترجمہ: بنو ہاشم کو زکوٰۃ
دینا جائز نہیں اور بنو ہاشم سے مراد آلِ علی، آلِ عباس، آلِ
جعفر، آلِ عقیل اور آلِ حارث بن عبد المطلب ہیں،جیسا کہ ہدایہ
میں مذکور ہے۔(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،کتاب
الزکوٰۃ،صفحہ189، مطبوعہ پشاور)
سیدی اعلی
حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوٰی رضویہ
میں ارشاد فرماتے ہیں:’’زکوٰۃ
ساداتِ کرام و سائرِ بنی ہاشم پر حرامِ قطعی ہےجس کی حرمت پر
ہمارے ائمہ ثلٰثہ بلکہ ائمہ مذ اہبِ اربعہ رضی اﷲتعالٰی
عنہم اجمعین کا اجماع قائم۔“(فتاوٰی رضویہ،جلد10،صفحہ99، رضافاؤنڈیشن،
لاھور)
لاعلمی کی
وجہ سے غلط مصرف میں زکوۃ دینے
سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی،چنانچہ فتاوی اہلسنت احکام ِ زکوٰۃ
میں سوال ہوا کہ میں پچھلے پچیس سال سےزکوٰۃ اور
فطرہ اپنے غریب بیٹے کو دے رہی ہوں ،اب معلوم ہوا کہ بیٹے
کو زکوۃ اور فطرہ نہیں دے سکتے ، تو جو دے دیاہے اس کا کیا
کریں؟ ادا ہو گیا یا اس کا کوئی کفارہ ہے؟
اس کے جواب میں
فرمایا:’’ مذکورہ صورت میں آپ کی زکوۃ ادا نہ ہوئی،
لہذا گزشتہ سالوں کی زکوۃ اور فطرہ از سر نو ادا کیا جائے ۔(فتاوی
اہلسنت احکام ِ زکواۃ، صفحہ 242، مکتبۃ المدینہ )
دارالاسلام میں شرعی
مسائل سے نا واقفی عذر نہیں،جیسا کہ سیدی اعلیٰ
حضرت علیہ الرحمۃ فتاوی
رضویہ میں ایک مقام پر ارشاد فرماتےہیں:’’ ان
الدار دارالاسلام فلایکون الجھل فی احکام الشرعیۃ عذرا( چونکہ یہ دارالاسلام ہے، لہذا احکام شرعیہ سے جاہل ہونا کوئی
عذر نہ بن سکے گا۔)‘‘( فتاوی رضویہ،جلد11،صفحہ224،
رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟