مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12379
تاریخ اجراء: 01صفر
المظفر1444 ھ/29اگست2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید
مستحقِ زکوٰۃ ہو،اس کے بھائی نے ڈالر کی صورت میں
اسے زکوٰۃ کی رقم بطور ملکیت دی ہو جس میں سے کچھ رقم زید نے خرچ کردی ہو جبکہ
باقی رقم کوزید نے کسی
صحیح وقت کے انتظار کے لیے رکھ دیا ہو۔ اب معلوم یہ
کرنا ہے کہ اگر وہ رقم سال بھر زید کی ملکیت میں رہتی
ہے تو کیا زید پر زکوٰۃ میں حاصل شدہ اس رقم پر زکوٰۃ
نکالنا فرض ہے؟؟رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر یہ
رقم قرض اور حاجت اصلیہ سے فارغ ہو کر نصاب کے برابر پہنچتی ہے ، تو
نصاب کا ہجری سال مکمل ہونے پر اس رقم کی زکوٰۃ نکالنا
بلا شبہ زید پر فرض ہوگا۔ کہ زید کا صحیح وقت کے انتظار
کے لیے اس رقم کو رکھ لینا، یونہی اس رقم کا زکوٰۃ
میں وصول ہونا، یہ چیزیں فرضیتِ زکوٰۃ
سے مانع نہیں ۔اصل اعتبار غنی ہونے اور زکوۃ کی دیگر
شرائط پائے جانے کا ہے ۔
زکوٰۃ
نصاب کا ہجری سال مکمل ہونے
پر فرض ہوتی ہے۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری
میں ہے:”( ومنها حولان الحول على المال ) العبرة في
الزكاة للحول القمري كذا في القنية ، وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه
فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة كذا في الهداية۔“یعنی زکوٰۃ واجب ہونے کی
شرائط میں سےایک شرط مال پر
سال گزرنا بھی ہے، یہاں زکاۃ میں قمری سال کا
اعتبار ہے، جیسا کہ قنیہ میں ہے۔ اگر سال کے شروع اور آخر
میں نصاب کامل ہے تو درمیانِ سال نصاب میں ہونے والی کمی
سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی، جیسا کہ ہدایہ میں
ہے۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الزکاۃ، ج01،ص175،مطبوعہ پشاور)
سیدی اعلیٰ
حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :”سب میں پہلی جس عربی
مہینے کی جس تاریخ جس گھنٹے منٹ پر وہ56 (چاندی کے)روپیہ
کا مالک ہوا اور ختمِ سال تک یعنی وہی عربی مہینہ
وہی تاریخ وہی گھنٹہ منٹ دوسرے سال آنے تک
اس کے پاس نصاب باقی رہا، وہی مہینہ تاریخ منٹ اس کے لیے
زکوۃ کا سال ہے ،آمدنی کا سال کبھی سے شروع ہوتا ہو ،اُس عربی
مہینہ کی اس تاریخ منٹ پر اس کی زکوۃ دینا
فرض ہے۔“(فتاوٰی
رضویہ ،ج10،ص 157،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
یادرہےکہ جس دن نصاب کا ہجری سال
پورا ہوتا ہے تو فقط اس دن کا اعتبار ہوتا ہے کہ رقم نصاب کے برابر بچتی ہے یا
نہیں، لہذا اس دن حاجتِ اصلیہ
اور قرض کو منہا کرنے کے بعد بھی
اگر نصاب باقی رہتا ہے تو اس رقم پر زکوٰۃ فرض ہے اگر چہ اسے
آئندہ کسی حاجت میں خرچ کرنے کے لیے رکھا ہو۔ جیسا
کہ فتاویٰ شامی میں ہے:”اذا امسکہ لینفق منہ کل ما یحتاجہ فحال الحول وقد بقی معہ
منہ نصاب فانہ یزکیٰ ذلک الباقی، وان کان قصدہ الانفاق منہ ایضاً فی
المستقبل لعدم استحقاق صرفہ الی حوائجہ الاصلیۃ وقت حولان
الحول، بخلاف ما اذا حال الحول وھو مستحق الصرف الیھا“یعنی جب مال اس نیت سے روکے
رکھا کہ جو حاجت ہوگی اس میں خرچ کروں گا پھر اس پر سال گزر گیا
اور اس کے پاس نصاب باقی ہے تو اس باقی کی زکوٰۃ دے
گا اگرچہ اس کو مستقبل میں خرچ کرنے کی نیت ہو، کیونکہ
سال گزرنے کے وقت حاجتِ اصلیہ میں صرف کرنے کا استحقاق حاصل نہیں
ہے، برخلاف اس کے کہ جب سال پورا ہونے کے وقت اس مال کو حاجتِ اصلیہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہو۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الزکاۃ، ج 03، ص213، مطبوعہ کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے:”حاجتِ اصلیہ میں
خرچ کرنے کے روپے رکھے ہیں تو سال میں جو کچھ خرچ کیا کیا
اور جو باقی رہے اگر بقدرِ نصاب ہیں تو ان کی زکوٰۃ
واجب ہے، اگرچہ اسی نیت سے رکھے ہیں کہ آیندہ حاجتِ اصلیہ
میں صرف ہوں گے اور اگر سالِ تمام کے وقت حاجتِ اصلیہ میں
خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو زکوٰۃ واجب نہیں۔“(بہارِ شریعت ، ج 01، ص 881،
مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وقار الفتاویٰ میں ہے:”مکان
بنانے کے لئے، بچوں کی شادی کے لئے، سواری خریدنے کے لئے یا
حج کرنے کے لئے، جو رقم اس کے پاس رکھی ہے اور وہ نصاب کو پہنچتی ہے
تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔“(وقار
الفتاوٰی، ج 02، ص 393، بزم وقار الدین)
فتاوٰی فقیہِ ملت میں سوال ہوا ”ذمہ داران
مدرسہ نے بتاریخ 2 شوال بطور حیلہ شرعی دس ہزار رقم زید
کو دی ،اس نے بعد قبضہ مدرسہ کو دی پھر اسی طرح دوسرے سال اسی
تاریخ میں اسے دس ہزار رقم اسے دی اس نے پھر اسے مدرسے میں
دیدی تو اس پر زکاۃ واجب ہوئی یا نہیں؟“اس کے
جواب میں ہے:”صورتِ مسئولہ میں زید پر زکاۃ واجب نہیں
ہے کہ وجوب زکاۃ کے لیے مال نصاب پر سال گزرنا شرط ہے یعنی
وہ مال نصاب درمیان سال بالکل ختم نہ ہو ورنہ زکاۃ واجب نہیں
ہوگی۔۔۔۔لہذا اگر سال بھر زید کے پاس کچھ
مال حاجتِ اصلیہ سے زائد رہا اور دوسرے سال اسی تاریخ اسی
وقت اور اسی منٹ پر حیلہ شرعی کیا گیا تو اس پر زکاۃ
واجب ہے ورنہ نہیں۔“(فتاوٰی فقیہ ملت، ج 01، ص 325-324، شبیر
برادرز لاہور،ملتقطاً و ملخصاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟