مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری
فتوی نمبر:Nor-12352
تاریخ اجراء:17محرم الحرام 1444 ھ/16اگست 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین
اس مسئلےکےبارےمیں کہ کیا یتیم بچے کو زکوٰۃ
دی جاسکتی ہے؟ جبکہ اس کی ماں، صاحبِ نصاب ہو؟ رہنمائی
فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
یتیم بچہ اگر شرعی
فقیر ہو اور سید یا ہاشمی نہ ہو، تو اسے
زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، اگر چہ اس کی ماں،صاحبِ نصاب
ہو، کیونکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے
مطابق ماں کے مالدار ہونے کی وجہ سے
نابالغ بچہ غنی شمار نہیں ہوتا۔
چنانچہ تنویر الابصار مع الدر
المختار میں ہے:” (و)
لا إلى (طفله) بخلاف ولده الكبير وأبيه وامرأته الفقراء وطفل الغنية فيجوز،لانتفاء
المانع “یعنی صاحبِ نصاب شخص کے نابالغ بچے کو
زکوٰۃ دینا شرعاً جائز نہیں،البتہ مانع نہ پائے جانے کی وجہ سے مالدار کے شرعی فقیر بالغ بیٹے ، اس
کے باپ اور بیوی کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
مذکورہ بالا عبارت کے تحت
رد المحتار میں ہے:”(قوله: وطفل الغنية) أي ولو لم يكن له أب،بحر عن القنية
(قوله: لانتفاء المانع) علة للجميع والمانع أن الطفل يعد غنيا بغنى أبيه بخلاف
الكبير فإنه لا يعد غنيًا بغنى أبيه ولا الأب بغنى ابنه ولا الزوجة بغنى زوجها ولا
الطفل بغنى أمه“ترجمہ:(قوله: وطفل الغنية) یعنی اگر چہ
اس کا باپ زندہ نہ ہو، بحر میں یہ قنیہ کے حوالے سے منقول ہے۔
(قوله: لانتفاء المانع)یہ تمام کی
علت ہے اور مانع یہ ہے کہ بچہ اپنے باپ کی وجہ سے غنی شمار ہوتا
ہے،برخلاف بالغ بچے کے کہ وہ اپنے باپ کی وجہ سے غنی شمار نہیں ہوتا،
یونہی باپ اپنے بیٹے کی وجہ سے، زوجہ اپنے شوہر کی
وجہ سے غنی شمار نہیں ہوتے اور نہ ہی نابالغ بچہ اپنی مالدار
ماں کی وجہ سے غنی شمار ہوتا
ہے ۔ “(ملخصاً ،ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الزکوۃ، ج03،ص350،349،مطبوعہ
کوئٹہ)
جن افراد کو زکوٰۃ دینا شرعاً جائز ہے،
اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ
حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”زن غنیہ کا نا بالغ بچہ اگر چہ
یتیم ہو
یا اپنے بہن ، بھائی،چچا،پھوپھی، خالہ ،ماموں، بلکہ انہیں
دینے میں دُونا ثواب ہے، زکوٰۃ وصلہ رحم۔“(فتاوی
رضویہ ، ج10، ص110، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ”یتیموں کو زکوٰۃ
دینا جائز ہے یا نہیں؟بچہ اپنی قرابت کا ہے، اُس کا وارث
کوئی نہیں؟“ آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے
ہیں:”یتیم
بچّہ کو خصوصاً جبکہ اپنا قرابت دار ہو، زکوٰۃ دینا بہت افضل ہے، جبکہ
وہ نہ مالدار ،نہ سید وغیرہ نہ ہاشمی ہو، نہ اپنی اولاد
یا اولاد کی اولاد ہو۔ “ (فتاوی
رضویہ ، ج10، ص262، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
بہارِ شریعت میں ہے:”جس بچہ کی ماں مالک نصاب ہے، اگرچہ اس کا
باپ زندہ نہ ہو، اُسے زکاۃ دے سکتے ہیں۔“ (بھارِ شریعت، ج
01، ص 929، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟