Kya Sirf Bechne Ke Liye Lagai Jane Wali Fasal Par Ushr Hoga ?

کیا صرف بیچنے کے لئے لگائی جانے والی فصل پر عشر واجب ہوتا ہے ؟

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1144

تاریخ اجراء: 11ربیع الثانی1445 ھ/31اکتوبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   زمینی پیداوار پر عشر واجب ہوتا ہے یا وہ پیدا وار جس سے زمین کا نفع حاصل کرنا مقصود ہو ۔سوال یہ ہے کہ گھر کی زمین میں بھی کچھ چیزیں لگاتے ہیں جس سے زمینی پیداوار حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے ، کیا اس پر عشر واجب ہوگا؟ نیز کیا عشر صرف اس پیداوار پر واجب ہوگا جس کو بیچ کر نفع اٹھایا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   گھر میں اُگائی چیزوں پر عشر واجب نہیں ۔مگر  اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ عشر صرف اس پیداوار پر لازم ہوگا جس کو بیچنا ہو ۔ شرعی حکم یہ ہے کہ زمین کا نفع حاصل کرنے کے لیے خود فصل  کاشت کی یا اسی نیت سے زمین کو خالی چھوڑ دیا تو ان دونوں صورتوں میں عشر یا نصف عشر دینا لازم ہوگا۔ خواہ اس سے حاصل شدہ پیداوار کو بیچنا مقصود ہو یا صرف گھر ، خاندان میں استعمال کے لیے اگایا ہو یا جانوروں کو کھلانے کے لیے چارہ اگایا ہو۔

   علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”فلو استنمی ارضہ بقوائم الخلاف وما اشبھہ او بالقصب او الحشیش وکان یقطع ذلک ویبیعہ کان فیہ العشر ، غایۃ البیان ومثلہ فی البدائع وغیرھا ، قال فی الشرنبلالیۃ وبیع ما یقطعہ لیس بقیدولذا اطلقہ قاضیخان“ترجمہ: لہذا اگر اپنی زمین میں بید یا نرکل یا گھاس وغیرہ اگایا اور اسے کاٹ کر بیچتا ہے تو اس میں عشر واجب ہے، اور اسی کی مثل کلام بدائع الصنائع وغیرہ میں ہے ، شرنبلالیہ میں فرمایا کہ کاٹی ہوئی چیز کو بیچنا شرط نہیں اسی وجہ سے فتاوی قاضی خان میں اسے مطلق رکھا۔(ردالمحتار ، کتاب الزکاۃ ، باب العشر ، جلد3، صفحہ316، مطبوعہ:کوئٹہ، ملتقطا)

   گھر کی پیداوار میں عشر نہ ہونے سے متعلق مجمع الانہر میں ہے:”ولا شيء في الدار ولو لذمي لأن عمر  رضي الله تعالى عنه قال المساكن عفو“ترجمہ : اور گھر کی پیداوار میں کچھ واجب نہیں اگرچہ گھر ذمی کا ہو کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا گھر کی پیداوار معاف ہے ۔(مجمع الانہر ، کتاب الزکاۃ ، باب زکاۃ الخارج ، جلد1، صفحہ323،مطبوعہ: کوئٹہ )

   درمختار میں ہے:”ولا شيء في عين دار“ترجمہ : اور گھر کے اندر اگائی جانے والی چیزوں میں کچھ واجب نہیں ۔

   اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:”لأن عمر رضي الله تعالى عنه  جعل المساكن عفوا وعليه إجماع الصحابة ولأنها لا تستمنى ووجوب الخراج باعتباره“ترجمہ :  کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھر کی پیداوار کو معاف قرار دیا اور اسی پر صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع ہے نیز یہ بھی وجہ ہے کہ اس سے زمین کا نفع حاصل کرنا مقصود نہیں ہوتا اور عشرو خراج کا تعلق اسی سے ہے ۔(درمختار مع ردالمحتار ، کتاب الزکاۃ ، باب العشر ، جلد3، صفحہ320،مطبوعہ: کوئٹہ )

   بہار شریعت میں ہے :”مکان یا مقبرہ میں جو پیداوار ہو، اُس میں نہ عشر ہے نہ خراج۔“ (بہار شریعت، جلد1، صفحہ 919، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم