مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-13174
تاریخ اجراء:27جمادی الاولیٰ1445ھ/12دسمبر2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں
علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں
کہ بیوی کے صاحبِ نصاب ہونے سے کیا
شوہر بھی صاحبِ نصاب کہلائے گا؟ اگر صاحبِ نصاب
نہیں کہلائے گا تو کیا اُسے زکوٰۃ بھی دی
جاسکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیوی کے صاحب ِ نصاب ہونے سے
شوہر، صاحبِ نصاب شمار نہیں ہوگا، جیسا کہ فقہائے کرام کی
تصریحات کے مطابق غنی شخص کی فقیر بیوی کو
زکوٰۃ دینا جائزہے کہ
وہ شوہر کی وجہ سے غنی شمار نہیں ہوگی، لہذا صاحبِ
نصاب بیوی کا شوہر اگر سید یا ہاشمی نہیں ہے اور
شرعی فقیر بھی ہے (یعنی اس کی ملکیت
میں قرض اور حاجتِ اصلیہ نکال کر ساڑھے سات تولے سونا ، ساڑھے باون تولہ
چاندی یا اس کی
مالیت کے برابر کسی قسم کا زائد سامان موجود نہیں ہے) ، تو بلاشبہ اُسے
زکوۃ دے سکتے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور یاد رہے کہ بیوی
اپنی زکوٰۃ بہر صورت شوہر کو نہیں دے سکتی، خواہ شوہر مستحقِ زکوٰۃ ہو یا نہ
ہو۔
غنی شخص کی فقیر
بیوی کو زکوٰۃ دینا جائزہے۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:”ولو دفع إلى امرأة فقيرة وزوجها غني جاز في
قول أبي حنيفة ومحمد وهو إحدى الروايتين عن أبي يوسف۔“یعنی امام اعظم اور امام محمد علیہما
الرحمہ کے قول کے مطابق اور امام ابویوسف علیہ الرحمہ کی دو روایتوں
میں سے ایک روایت کے مطابق، ایسی فقیر عورت کو
زکوٰۃ دینا جائز ہے جس
کا شوہر غنی ہو ۔(البدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، ج 02، ص 47 ، دار الكتب العلمية، بیروت)
فتاوٰی عالمگیری میں ہے: ” ويدفع إلى امرأة غني إذا كانت فقيرة“ یعنی غنی کی
بیوی کوزکاۃ دینا جائز ہے، جبکہ وہ فقیر ہو۔ (فتاوی ہندیہ،کتاب
الزکاۃ،ج01،ص189، مطبوعہ بیروت)
صاحبِ نصاب ہونے میں میاں بیوی کا
معاملہ جدا جدا ہے۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت
علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”عورت
اور شوہر کا معاملہ دنیاکے اعتبار سے کتنا ہی ایک ہو مگر
اﷲعزّوجل کے حکم میں وُہ جدا جدا ہیں، جب تمھارے پاس
زیور زکوٰۃ کے قابل ہے اور قرض تم پر نہیں شوہر پر ہے تو
تم پر زکوٰۃ ضرور واجب ہے اور ہر سال تمام پر زیور کے
سوا جو روپیہ یا اور زکوٰۃ کی کوئی چیز
تمھاری اپنی ملک میں تھی اس پر بھی
زکوٰۃ واجب ہُوئی ۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 10، ص 168، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
زکوٰۃ کا
ایک مصرف شرعی فقیر بھی ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرالمختار
میں ہے:”(باب المصرف)ای
مصرف الزکاۃ و العشر۔۔۔ (ھو فقیر، و ھو من لہ
ادنی شیء)ای دون نصاب “ یعنی زکوٰۃ اور عشر کا ایک
مصرف فقیر بھی ہے اور فقیر سے مراد وہ شخص ہے جونصاب سے کم مال
کا مالک ہو۔(الدر المختار مع رد المحتار ،کتاب الزکاۃ، ج03،ص333،مطبوعہ کوئٹہ،
ملخصاً)
بہارِ شریعت
میں ہے:”فقیر وہ شخص
ہے جس کے پاس کچھ ہو مگر نہ اتنا کہ نصاب کو پہنچ جائے یا نصاب کی قدر
ہو تو اُس کی حاجتِ اصلیہ میں مستغرق ہو، مثلاً رہنے کا
مکان ، پہننے کے کپڑے، خدمت کے لیے
لونڈی غلام، علمی شغل رکھنے والے کو دینی کتابیں جو
اس کی ضرورت سے زیادہ نہ ہوں ۔“(بہارِ شریعت، ج
01، ص 924، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟