مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12977
تاریخ اجراء: 12صفر المظفر1445 ھ/30اگست 2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نانی
اپنے محتاج نواسے کو زکوٰۃ دے سکتی ہے؟ جبکہ اُسے گزر بسر میں
کافی مشقت کا سامنا ہو۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
البتہ ممکنہ صورت میں
نانی زکوٰۃ کے علاوہ نفلی مال سے اُس غریب نواسے کی مدد
کرتی ہے تویہ بہت عمدہ نیکی ہے اور اس میں صلہ
رحمی بھی ہے۔
اپنی
اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ جیسا کہ بدائع الصنائع وغیرہ کتبِ فقہیہ میں اس
حوالے سے مذکور ہے:”ومنها أن لا تكون منافع الاملاك متصلة بين المؤدى
وبين المؤدى إليه لان ذلك يمنع وقوع الاداء تمليكا من الفقير من كل وجه بل يكون
صرفا إلى نفسه من وجه وعلى هذا يخرج الدفع إلى الوالدين وان علوا والمولودين وان
سفلوا لان أحدهما ينتفع بمال الآخر۔“یعنی
زکوٰۃ کی درست ادائیگی کی شرائط میں سے
ایک شرط یہ بھی ہے کہ املاک کے منافع زکوٰۃ
دینے والے اور لینے والے کے درمیان متصل نہ ہوں، کیونکہ
ایسا ہونا کلی طور پر
فقیر کو زکوٰۃ کا مالک
بننے سے مانع ہے بلکہ یہ ایک اعتبار سے اپنے ہی اوپر زکوٰۃ
کا پیسہ خرچ کرنا ہے۔ اسی اصول پر اوپر تک والدین کو اور نیچے تک
اولاد کو زکوۃ دینے کا مسئلہ متفرع ہے کیونکہ ان میں سے
ہر ایک دوسرے کے مال سے نفع اٹھاتا ہے ۔(بدائع
الصنائع، کتاب الزکاۃ، ج 02، ص 49، دار الکتب العلمیۃ،
بیروت)
تحفۃ الفقہاء
میں ہے:”والشرط
الآخر أن لا يكون منافع الأملاك متصلة بين صاحب المال وبين المدفوع إليه لأن
الواجب هو التمليك من الغير من كل وجه فإذا كانت المنافع بينهما متصلة عادة فيكون
صرفا إلى نفسه من وجه فلا يجوز بيان ذلك أنه لو دفع الزكاة إلى الوالدين وإن علوا
أو إلى المولودين وإن سفلوا لا يجوز لاتصال منافع الأملاك بينهم “یعنی ایک شرط یہ بھی ہے کہ
زکوۃ دینے والے اور جسے دی جائے ، ان کے مابین
ملکیت کے منافع مشترک نہ ہوں
کیونکہ کلی طور پر دوسرے کو مال کا مالک بنا دینا واجب
ہے۔ جب منافع عادتاً مشترک ہوں گے تو ایک اعتبار سے خود پر خرچ کرنا
کہلائے گا جو کہ جائز نہیں ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر
والدین کو اوپر تک یا اولاد کو نیچے تک زکوۃ دی تو
یہ ناجائز ہے کیونکہ ان میں ملکیت کے منافع مشترک ہوتے
ہیں۔ (تحفة الفقهاء،کتاب الزکاۃ، ج 01، ص 303، دار الکتب
العلمیۃ، بيروت)
اللباب شرح الکتاب میں
ہے:”(ولا يدفع المزكي زكاته إلى أبيه وجده وإن علا ولا
إلى ولده وولد ولده وإن سفل)؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة: فلا يتحقق التمليك
على الكمال“یعنی زکوٰۃ
دینے والا شخص اپنی زکوٰۃ اپنے باپ، دادا اگرچہ اوپر تک ہوں ان کو نہیں دے سکتا، اور نہ ہی اپنی زکوٰۃ اپنی اولاد
اور اولاد کی اولاد کو دے سکتا ہے اگرچہ نیچے تک ہوں، کیونکہ ان کے
مابین املاک کی منفعت متصل ہے پس یہاں کامل طور پر تملیک
نہیں پائی جائے گی۔(اللباب شرح الکتاب، کتاب الزکاۃ، ج 01، ص 155، المکتبۃ
العلمیۃ)
فتاوٰی
رضویہ میں ہے:”مصرفِ زکوٰۃ ہر مسلمان حاجتمند جسے اپنے مال
مملوک سے مقدار نصاب فارغ عن الحوائج الاصلیہ پر دسترس نہیں
بشرطیکہ نہ ہاشمی ہو۔۔۔۔ نہ وہ جو
اپنی اولاد میں ہے جیسے بیٹا، بیٹی،
پوتاپوتی، نواسانواسی۔“ (فتاوٰی
رضویہ، ج10،ص246، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک
دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:” آدمی جن کی
اولاد میں خودہے یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا
نانی یاجو اپنی اولاد میں ہیں یعنی
بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی
اور شوہر و زوجہ ان رشتوں کے سوا اپنے جو عزیز قریب حاجتمند مصرفِ
زکوٰۃ ہیں، اپنے مال کی زکوٰۃ انہیں دے
جیسے بہن بھائی ، بھتیجا ، بھتیجی، ماموں ، خالہ
چچا ، پھوپھی ۔“(فتاوٰی
رضویہ، ج10،ص264، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت
میں ہے:” اپنی اولاد بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا
نواسی وغیرہم کو زکاۃ نہیں دے سکتا۔“(بہار شریعت، ج 01، ص 927، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟