مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
مدنی
فتوی نمبر: Nor-12251
تاریخ اجراء: 23 ذوالقعدۃ الحرام 1443 ھ/23 جون 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس
مسئلہ کے بارے میں کہ کیا
نابالغ پرعشر لازم ہوتا ہے؟ اگر لازم ہوتا ہے ، تو اس کی کیا وجہ
ہے،جبکہ نابالغ تو عبادات کا مکلف نہیں ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
فقہاء نے صراحت فرمائی ہے کہ عشر
کی فرضیت قرآن و حدیث ، اجماع و قیاس سے ثابت ہےاورعشر
واجب ہونے کا سبب وہ زمین ہے جس سے حقیقۃً پیدا وار ہواور
یہ نابالغ پر بھی واجب ہوتا ہے۔ نابالغ پر عشر واجب ہونے
کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک میں اللہ رب العالمین کا فرمان
عام ہے کہ زمین سے جو ہم نے تمہارے لئے نکالا ،اس میں سے اللہ
کی بارگاہ میں خرچ کرو ، اب زمین چاہے جس کی ملکیت
بھی ہو، جس نے بھی اس زمین سے پیداوار حاصل کی وہ
اس کا عشر ادا کرے گا ، چاہے وہ نابالغ ہی کیوں نہ ہو،اسی وجہ
سے فقہاء نے فرمایا کہ وقف کی گئی زمینوں سے حاصل ہونے
والی پیداوار پر بھی عشر ہوگا،حالانکہ یہ کسی انسان
کی ملکیت نہیں ہوتیں۔ اسی طرح حدیث پاک
میں واضح فرمایا کہ جس زمین کو آسمان سے نازل ہونے
والی بارش نے سیراب کیا ،اس میں عشر
کی ادائیگی ہوگی اور جس زمین کو جانوروں پر پانی
لاد کر سیراب کیا گیا ،اس میں نصف عشر ہے ، حدیث کے
اس حکم میں بھی عموم ہے ،لہٰذا وہ زمین جس کی
بھی ہو، جب اس میں کوئی پیداوار ہوگی ، اس
میں عشر کی ادائیگی ہوگی۔
اللہ رب العالمین نے فرمایا:”یٰۤاَیُّہَا
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا
مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّاۤ اَخْرَجْنَا
لَکُمۡ مِّنَ الۡاَرْض “ ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو
اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو اور اس میں سے جو ہم نے
تمہارے لئے زمین سے نکالا۔ (پارہ:3، سورہ بقرہ، آیت:267)
قرآن پاک میں اللہ رب العالمین کا
فرمان ہے:”وَاٰتُوۡا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ “ترجمۂ کنز
الایمان:اور اس کا حق دو ،جس دن کٹے۔(پارہ:8،سورہ انعام، آیت: 141)
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا :”فیما
سقت السماء والعیون او کان عثریا العشر وما سقی بالنضح نصف
العشر“یعنی جس زمین کو آسمان اور
چشموں نے سیراب کیا ہو یا وہ زمین عشری ہو
(یعنی نہر کے پانی سے اسے سیراب کرتے ہوں)،تو اس
میں عشر (10/1) ہے اور جس
زمین کوجانوروں پرپانی لادکر سیراب کیاگیاہو،اس
میں نصف عشر (20/1)ہے۔ ( صحیح بخاری مع عمدۃ القاری،حدیث 1483،جلد9،صفحہ
102، مطبوعہ:کوئٹہ)
علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:”انهم قد صرحوا بان
فرضية العشر ثابتة بالكتاب والسنة والاجماع والمعقول وبانہ زکاۃ الثمار
والزروع۔۔۔۔۔ وبان سبب وجوبه الارض النامية بالخارج
حقيقة و بانه يجب فی ارض الصبی والمجنون والمكاتب لانه مؤنة الأرض ،
وبان الملك غير شرط فيه بل الشرط ملك الخارج ، فيجب فی الاراضی
الموقوفة لعموم قوله تعالى - { أنفقوا من طيبات ما كسبتم ومما أخرجنا لكم من
الأرض } - وقوله تعالى - { وآتوا حقه يوم حصاده
} - وقوله صلى الله عليه وسلم { ما سقت السماء
ففيه العشر وما سقي بغرب أو دالية ففيه نصف العشر } “یعنی فقہاء نے صراحت فرمائی ہے کہ عشر
کی فرضیت قرآن ،سنت ، اجماع اور قیاس سے ثابت ہے اور یہ پھلوں اور کھیتیوں
کی زکاۃ ہے ۔۔۔۔اور اس کے وجوب کا سبب ایسی نامی زمین ہے جس سے
حقیقۃ فصل ہو، نیزعشر بچے ، مجنون اور مکاتب کی
زمین میں بھی واجب ہوگا کیونکہ کہ یہ زمین
کی مؤنت ہے اور اس میں
ملکیتِ زمین شرط نہیں
بلکہ زمین سے نکلنے والی پیداوار کی ملکیت
شرط ہے،لہٰذا موقوفہ زمینوں میں بھی واجب گا،کیونکہ
اللہ رب العالمین کے دونوں فرمان:” أنفقوا من طيبات ما كسبتم ومما أخرجنا لكم من
الأرض } ۔۔۔ { وآتوا
حقه يوم حصاده } “ اور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:” ما سقت السماء ففيه العشر وما سقي بغرب أو دالية ففيه نصف
العشر “عام ہیں۔ ( رد
المحتارملتقطاً،جلد6،صفحہ 281،
مطبوعہ:بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:”اما العقل والبلوغ فلیسا من شرائط
اھلیۃوجوب العشرحتی
یجب العشر فی ارض الصبی والمجنون ،لعموم قول النبی
صلی اللہ علیہ وسلم :ماسقتہ السماء ففیہ العشر وما سقی
بغرب او دالیۃ ففیہ نصف العشر “یعنی عقل و بلوغ وجوبِ عشر کی
اہلیت کی شرائط میں سے نہیں ہیں ،یہاں تک کہ
نابالغ اور مجنون کی زمین میں بھی عشر واجب ہوگا
،کیونکہ عشر کے حوالے سےنبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان”ماسقتہ السماء ففیہ العشر وما سقی
بغرب او دالیۃ ففیہ نصف العشر“عام ہے۔(بدائع الصنائع،
جلد
2،صفحہ
499،مطبوعہ:بیروت)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نابالغ عبادات کا مکلف نہیں ،
لہٰذا اس اعتبار سے اس پر عشر کی ادائیگی واجب نہیں
ہونی چاہئے تھی ، لیکن یہاں عشر کی ادائیگی
واجب کیوں ہوئی ،اس کا جواب دیتے ہوئے فقہاء نے فرمایا کہ
نابالغ اگرچہ عبادات کا مکلف نہیں ، لیکن عشر اپنی اصل کے
اعتبار سے عبادت نہیں ہے،کیونکہ عشر واجب ہونے کا اصل سبب زمین
ہے ،اسی وجہ سے یہ اپنی اصل کے اعتبار سے عبادت نہیں
،بلکہ مؤنت(مشقت و بوجھ) ہے۔البتہ نموِ حقیقی(یعنی
زمین سے نکلنے والی پیداوار)جو زمین کے تابع ہے اس کے
اعتبار سے عشر میں عبادت کا معنی پایا جاتا ہے کہ یہ
زکاۃ کے مشابہ ہے کہ جس طرح زکاۃ کا تعلق مال کے نامی ہونے سے
ہوتا ہے ،اسی طرح عشر میں بھی زمین کے نامی ہونے کا
اعتبار ہوتا ہے اور جس طرح زکاۃ کا مصرف فقراء ہیں ،اسی طرح عشر
کا مصرف بھی فقراء ہوتے ہیں ۔تو جب عشر اپنی اصل کے
اعتبار سے عبادت نہیں ،بلکہ مؤنت ہے ،تو مؤنت کا لحاظ کرتے ہوئے اس
میں مالک کی اہلیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا
،بلکہ زمین کی پیداوار جس کی ملکیت میں
بھی ہوگی ،اس پر اس کا عشر یا نصف عشر واجب ہوگا چاہے وہ مالک نابالغ
یا مجنون ہو ۔البتہ چونکہ وصفِ تابع(یعنی نموِ
حقیقی و مصرف)کے اعتبار سے یہ عبادت ہے ، تو اس کا لحاظ کرتے
ہوئے کافر پرعشر واجب نہیں ہوگابلکہ
اس پر خراج کی ادائیگی لازم ہوگی۔
عشر کے وجوب کا سبب زمین ہے۔اس کے
متعلق فتاوی ھندیہ میں ہے:”وسببہ الارض النامیۃ بالخارج حقیقۃ“یعنی عشر کے وجوب کا سبب
ایسی نامی زمین
ہے جس سے حقیقۃ فصل ہو۔(فتاوی
ھندیہ،جلد1،صفحہ 185، مطبوعہ :ھند)
جب وجوب کا سبب زمین ہے ، تو مالک
کی طرف نظر نہیں کی جائے گی کہ وہ بالغ ہے یا
نابالغ،اس کے متعلق جوہرہ میں ہے:”والمراد
بالارض ھنا العشریۃ وفیہ اشارۃ الی انہ
لایلتفت الی المالک سواء کان بالغا او صبیا او مجنونا او عبدا
او کانت الارض وقفا “یعنی
زمین سے مراد یہاں عشری زمین ہے اور اس عبارت میں
اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مالک کی طرف نہیں دیکھاجائے
گاچاہے وہ بالغ ہو یا نابالغ ،مجنون ہو یا غلام یا زمین
وقفی ہو۔ (الجوھرۃ النیرۃ،
جلد1،صفحہ 306،مطبوعہ:بیروت)
عشر عبادتِ محضہ نہیں بلکہ یہ
ایک ایسی مؤنت ہے جس میں عبادت کا معنی پایا
جاتا ہے۔اس کے متعلق النھر الفائق میں ہے:”انہ لیس عبادۃ محضۃ بل مؤنۃ فیھا العبادۃ
ولذا وجب فی ارض الصبی والمجنون “یعنی عشر عبادتِ محضہ نہیں ،بلکہ
یہ ایک ایسی مؤنت ہے ،جس میں عبادت پائی
جاتی ہے اور اسی وجہ سے عشر نابالغ اور مجنون کی زمین
میں واجب ہوتا ہے۔(النھر الفائق،
جلد1،صفحہ 452،مطبوعہ:بیروت)
عشر ایک ایسی مؤنت ہے ،جس
میں عبادت تبعاً پائی جاتی ہے۔اس کے متعلق نہایہ
میں ہے:”ان العشر مؤنۃ فیھا القربۃ
والقربۃ فیہ تابعۃ
والزکاۃ قربۃ محضۃ“یعنی عشر ایک ایسی
مؤنۃ ہے جس میں عبادت پائی جاتی ہے اور اس میں
عبادت تابع ہوتی ہے ، جبکہ زکاۃ عبادتِ محضہ ہے۔(النھایۃ بشرح الھدایۃ،
بقیۃ الزکاۃ والصوم، صفحہ 164،مطبوعہ : مکۃ المکرمہ)
عشر مونت ہونے کی حیثیت سے
نابالغ و مجنون پر بھی لازم ہوگا۔اس کے متعلق تفسیرِ
مظہری میں ہے:”ومن حیث کونہ
مؤنۃ یجب علی الصغیر والمجنون ایضا کما یجب
علیہ نقفۃ الزوجۃ ونحوھا“یعنی
مؤنت ہونے کی حیثیت سے نابالغ اور مجنون پربھی واجب ہوگا
جیساکہ اس پر بیوی کا نفقہ وغیرہ واجب ہوتا ہے۔(تفسیرِ مظھری،جلد 1،صفحہ
418۔419۔مطبوعہ:دار احیاء التراث العربی، بیروت)
نابالغ عبادات کا مکلف نہیں ، لیکن
عشر عبادت نہیں بلکہ زمین کی مؤنت ہے اور نابالغ بھی ان افراد میں سے ہے
جن پر مؤنت واجب ہوتی ہے ، لہذا نابالغ پر عشر واجب ہوگا۔اس کے متعلق الجوہرۃ
النیرۃ میں ہے:”انما لم تجب
علی الصبی لانہ غیر مخاطب باداء العبادۃ ولھذا لا تجب
علیہ البدنیۃ کالصلاۃ والصوم والجھاد ولا مایشوبھا
المال کالحج بخلاف العشر فانہ مؤنۃ الارض ولھذا تجب فی ارض الوقف
وتجب علی المکاتب فوجب علی الصبی لانہ ممن تجب علیہ
المؤنۃ کالنفقات “یعنی بچے پر زکٰوۃ اس لیے واجب
نہیں کہ وہ ادائے عبادت کا مخاطب نہیں ہے اور اسی وجہ سے اس پر
عبادتِ بدنیہ جیسے نماز ، روزہ اور جہاد واجب نہیں اور نہ
ہی وہ عبادتِ بدنیہ واجب ہوتی ہیں جن میں مال شامل
ہو، جیسے حج، برخلاف عشر کہ کیونکہ یہ زمین کی
مشقت ہے اور اسی وجہ سے عشر وقفی زمین اور مکاتب پر بھی واجب
ہوتا ہے ،لہٰذا بچہ پر بھی عشر واجب ہوگا کیونکہ بچہ بھی
ان افراد میں سے ہے ،جن پر مؤنت واجب واجب ہوتی ہے جیسے
نفقات۔ (الجوھرۃ النیرۃ، جلد1،صفحہ
285،مطبوعہ:بیروت)
کشف الاسرار میں ہے:”والمؤنۃ
التی فیھا معنی القربۃ ھی العشر لان سببہ الارض
النامیۃ فباعتبار تعلقہ بالارض ھو مؤنۃ لان مؤنۃ
الشیئ سبب بقائہ والعشر سبب بقاء الارض وباعتبار تعلقہ بالنماء وھو الخارج
کتعلق الزکاۃ بہ او باعتبار ان مصرفہ الفقراء کمصرف الزکاۃ تحقق
فیہ معنی العبادۃ واخذ شبھا بالزکاۃالا ان الارض اصل والنماء
وصف تابع وکذا المحل شرط والشرط تابع فکان معنی المؤنۃ فیہ اصلا
ومعنی العبادۃ تبعا“یعنی
مؤنت جس میں قربت کا معنی پایا جاتا ہے وہ عشر ہے ،
کیونکہ اس کا سبب ارضِ نامیہ ہے ، زمین سے اس کےتعلق کے اعتبار
سے یہ مؤنت ہے ، اس لیے کہ کسی شی کی مونت اس
کی بقاکا سبب ہوتاہے اور عشر زمین کے باقی رہنے کاسبب ہے ،عشرفصل
سے متعلق ہونے کے اعتبارسےمال تجارت کی زکٰوۃ کی طرح ہے
یا عشرکا مصرف فقراء ہونے کے اعتبارسے زکٰوۃ کے مصرف کی
طرح ہے ،تواس میں عبادت کامعنی پیداہوکر یہ
زکٰوۃ کے مشابہ ہوگیامگرچونکہ زمین اصل اور فصل تابع وصف ہے یونہی محل شرط
ہے اورشرط تابع ہوتی ہے توعشر میں مونت اصل اور عبادت تابع
قرارپائی ۔(کشف الاسرار،الجزء الرابع،
صفحہ139،مطبوعہ:بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟