مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12607
تاریخ اجراء: 24جمادی الاولیٰ1444 ھ/19دسمبر2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں
علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا سید دوسرے سید
کو زکوۃ دے سکتا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی نہیں! ایک سید دوسرے سید
کو زکوۃ نہیں دے سکتا۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ ساداتِ
کرام اور بنو ہاشم کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ بنو ہاشم سے مراد پانچ خاندان ہیں:آلِ
علی،آلِ عباس ، آلِ جعفر، آلِ عقیل، آلِ حارث بن عبدالمطلب ۔ اب
خواہ دینے والا سید ہو یا بنو ہاشم ہو بہر صورت انہیں
زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
البتہ اگر واقعی سادات گھرانے کے کسی فرد کو مدد کی حاجت ہو تو ممکنہ صورت میں
زکوٰۃ اور صدقات ِ واجبہ کے علاوہ دیگر اموال سے اس کی
مدد کی جائے اور اسے اپنے لئے باعث
شرف سمجھا جائے کہ یہ عین سعادتمندی کی بات ہے۔
سادات کرام اور بنو ہاشم کو زکوٰۃ
نہیں دے سکتے۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری
میں ہے :”ولا يدفع إلى بني هاشم ، وهم آل علي وآل عباس
وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية“یعنی بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا
جائز نہیں اور بنو ہاشم سے مراد آلِ علی، آلِ عباس، آلِ جعفر، آلِ
عقیل اور آلِ حارث بن عبد المطلب ہیں، جیسا کہ ہدایہ میں مذکور
ہے۔(فتاوی عالمگیری،کتاب الزکوٰۃ،
ج01،ص189، مطبوعہ پشاور)
فتاوٰی
رضویہ میں ہے:’’زکوٰۃ ساداتِ کرام و سائرِ بنی
ہاشم پر حرامِ قطعی ہے جس کی حرمت پر ہمارے ائمہ ثلٰثہ بلکہ
ائمہ مذ اہبِ اربعہ رضی اﷲتعالٰی عنہم اجمعین کا
اجماع قائم۔“(فتاوٰی
رضویہ،ج10،ص99،رضافاؤنڈیشن، لاہور)
ایک
سید یا ہاشمی دوسرے سید یا ہاشمی کو
زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ جیسا کہ سیدی علیہ
الرحمہ سے سوال ہوا کہ ”زکوٰۃ احوج کو دینا اولیٰ
ہے خصوصاً جو احوج اپنا قریب ہو یہ حکم مطلق ہے مثلاً بنی ہاشم
اپنے اقارب احو جین کو زکوٰۃ دیں یا یہ مخصوص
ہیں بوجہ حدیث:" یا
بنی ھاشم حرم اﷲتعالیٰ علیکم غسالۃ الناس
واوساخھم الخ۔" اے
بنی ہاشم ! اﷲتعالےٰ نے تم پر لوگوں کا بچاہوا مال اور ان کی مَیل حرام کردی ہے
الخ کے ۔ “ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے
ہیں: ”بیشک زکوٰۃ اور سب صدقات اپنے عزیزوں
قریبوں کو دینا افضل اور دو چنداجرکاباعث ہے۔۔۔ ۔مگر یہ اسی صورت میں ہے کہ وُہ
صدقہ اس کے قریبوں کو جائز ہو، زکوٰۃ کے لیے شریعتِ
مطہرہ نے مصارف معین فرمادئے ہیں اور جن جن کو دینا جائزہے صاف
بتادئے، اس کے رشتہ داروں میں وُہ لوگ جنھیں دینے سے ممانعت
ہے ہرگز استحقاق نہیں رکھتے ، نہ اُن کے دئیے زکوٰۃ ادا
ہو جیسے اپنے غنی بھائی یا فقیر بیٹے کو
دینا، یونہی اپنا قریب ہاشمی کہ شریعت
مطہرہ نے بنی ہاشم کو صراحۃً مستثنیٰ فرمالیا ہے
اور بیشک نصوص مطلق ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو بیشک حکم احادیث
ہاشمیوں پر مطلق زکوٰۃ کی تحریم ہے خواہ
ہاشمی کی ہو یا غیر ہاشمی کی، اور
یہی مذہب امام کا ہے اور یہی اُن سے ظاہر
الروایۃ اور اسی پر متون، تویہی معتمد ہے۔ “(فتاوٰی
رضویہ، ج 10، ص 289-286، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً و ملخصاً)
بہارِ شریعت میں ہے:”بنی ہاشم
کوزکاۃ نہیں دے سکتے۔ نہ غیر انھیں دے سکے، نہ
ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے مُراد
حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی
اولادیں ہیں۔ “( بہار
شریعت، ج 01، ص 931، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟