مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
مدنی
فتوی نمبر:
Nor-12269
تاریخ اجراء: 21 ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/21جون 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس
مسئلہ کے بارے میں کہ کیا صرف سات تولہ سونے پر زکوٰۃ فرض
ہوگی؟ جبکہ اس شخص کی ملکیت میں سونے کے علاوہ اور کچھ بھی
نہ ہو ؟؟ رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر اس شخص کی
ملکیت میں اموالِ زکوٰۃ میں صرف یہی
سونا ہے تو اس صورت میں زکوٰۃ فرض نہیں، کیونکہ صرف سونا ہو، تو زکوٰۃ اس وقت فرض
ہوتی ہے کہ جبکہ وہ ساڑھے سات تولہ مکمل
ہو۔ لیکن صرف سونا
ہونے کی صورت میں خوب غور و فکر کی حاجت ہے کہ بسا اوقات حاجت
سے زائد مالِ زکوٰۃ ملکیت میں موجود ہوتا ہے جس کی
طرف انسان کی توجہ نہیں ہوتی اور یوں وہ غلطی کا
ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔
البتہ یہ شرعی مسئلہ ضرور ذہن نشین رہے کہ اگر سونے کے ساتھ ساتھ کسی
شخص کی ملکیت میں حاجتِ اصلیہ
اور قرض سے زائد دیگر اموالِ
زکوٰۃ (چاندی،
کرنسی، مالِ تجارت) میں سے کوئی مال بھی موجود ہو، تو اب ساڑھے سات
تولہ سونے کے بجائے ساڑھے باون تولہ
چاندی کی مالیت کا
اعتبار ہوگا یعنی کہ اگر یہ تمام اموالِ زکوٰۃ ساڑھے
باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچتے ہوں، تو اس صورت میں
زکوۃ کے نصاب کا ہجری سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ فرض
ہوگی۔
صرف سونا ہونے کی صورت میں اس کا نصاب ساڑھے سات تولہ
سونا ہے۔ جیسا کہ "موطأ الامام مالك"میں اس حوالے
سے مذکور ہے:”ليس
فيما دون عشرين دينارا عينا الزكاة وليس في مائتي درهم ناقصة بينة النقصان زكاة “ترجمہ: ”بیس دینار (ساڑھے سات تولہ سونے) سے کم
میں زکوٰۃ نہیں، یونہی دو سو درہم (ساڑھے
باون تولہ چاندی)سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔“ (موطأ الإمام مالك، ج01،ص246، دار إحياء التراث، مصر)
تحفۃ الفقہاء میں ہے:”اما الذھب المفرد ان یبلغ نصابا و ذلک عشرون
مثقالا ففیہ نصف مثقال و
ان کان اقل من ذلک فلا زکاۃ فیہ“ ترجمہ:”صرف سونا ہو، تو اگر وہ نصاب کو پہنچے،
تب اس میں زکوٰۃ فرض ہو گی اور سونے کا نصاب بیس
مثقال(یعنی ساڑھے سات تولہ) سونا ہے اور اگر سونا اس سے کم ہو، تو اس
میں زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی۔ (تحفۃ الفقھاء، ج01، ص266 ، دارالکتب
العلمیۃ، بیروت)
مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقار
الدین قادری علیہ الرحمہ اس حوالے سے فرماتے ہیں :”سونے
کی مقدار ساڑھے سات تولے اور چاندی کی مقدار ساڑھے باون
تولے ہے۔جس کے پاس صرف سونا ہے، روپیہ پیسہ ،
چاندی اور مالِ تجارت بالکل نہیں ، اس پر سوا سات تولے تک سونے
میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب پورے ساڑھے سات تولہ ہو گا، تو
زکوٰۃ فرض ہو گی، اسی طرح جس کے پاس صرف چاندی
ہے ، سونا ، روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بالکل نہیں ہے، اس
پر باون تولے چاندی میں بھی زکوٰۃ فرض نہیں
ہے، جب ساڑھے باون تولہ پوری ہو یا اس سے زائد ہو، تو
زکوٰۃ فرض ہوگی۔لیکن اگر چاندی اور سونا
دونوں یا سونے کے ساتھ روپیہ پیسہ ، مالِ تجارت بھی
ہے، اسی طرح صرف چاندی کے ساتھ روپیہ پیسہ اور مالِ
تجارت بھی ہے، تو وزن کا اعتبار نہ ہو گا، اب قیمت کا اعتبار ہو گا،
لہٰذا سونا چاندی ، نقد روپیہ اور مالِ تجارت سب کو
ملا کر ، اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی
قیمت کے برابر ہو جائے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔“ (وقار الفتاوی، ج02،ص385-384،بزم وقار الدین،
کراچی)
فتاوٰی اہلسنت احکامِ
زکوٰۃ میں ہے:”صورتِ مسئولہ میں اگر
آپ کے پاس صرف یہی سونا ہے، اس کے علاوہ سونا ، چاندی،
تجارت کا سامان اور رقم وغیرہ نہیں، تو زکوٰۃ جس نصاب پر
فرض ہوتی ہے ، اس اعتبار سے آپ صاحبِ نصاب نہیں ہیں کہ صرف
سونا ہو، تو فرضیتِ زکوٰۃ کے لیے اس کا نصاب
ساڑھے سات تولہ سونا ہے، لہٰذا اس حالت میں سال پورا ہونے پر آپ
پر زکوٰۃ بھی فرض نہیں ہو گی اور اگر سونے کے
ساتھ کچھ چاندی ، اگرچہ ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو
یا سامانِ تجارت یا رقم ضرورت سے زائد ہو ، تو زکوٰۃ کا
نصاب تو بن جائے گا، اس لیے کہ اب سونے کے نصاب کا اعتبار نہ ہو
گا، بلکہ چاندی کے نصاب سے موازنہ کیا جائے گا اور وہ
ساڑھے باون تولہ چاندی ہے ، لیکن آپ پر اتنا قرض بھی
ہے کہ اس قرض کو آپ کے مال سے نکالیں ، تو نصاب
باقی نہیں رہے گا، اس لیے اس طرح بھی آپ پر
زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی۔“ (فتاوٰی اھلسنت احکامِ
زکوٰۃ ،ص110،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟