Kya 4 Mah Mein Taiyar Hone Wali Fasal Per Usher Lazim Hoga?

 

کیا چار ماہ میں تیار ہونے والی فصل پر عشر لازم ہوگا؟

مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1808

تاریخ اجراء:29ربیع الاول1446ھ/04اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مجھے ایک سوال میں آپ کی رہنمائی چاہیے کہ میرے پاس ایک زمین ہے جس کی فصل چار ماہ میں تیار ہو جاتی ہے ، معلوم یہ کرنا ہے کہ اس پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی یا نہیں اور اگر کی جائے گی ،تو کتنی ادا کی جائے گی اور اس کا نصاب کیسے نکالا جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کھیتی باڑی والی زمین میں جب فصل کاشت کی جاتی ہے، تو اس سے جتنی بھی فصل حاصل ہوگی،اس پر عشر یا نصف عشر لازم ہوگا، اسی کو زمین کی زکوٰۃ کہا جاتا ہے، اس میں نصاب کی کوئی حد نہیں اور نہ ہی سال گزرنا شرط ہے، بلکہ جب بھی فصل حاصل ہوگی اور جتنی بھی حاصل ہوگی، اس پر عشر یا نصف عشر لازم ہوگا۔

   عشر یا نصف عشر لازم ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر زمین کی آب پاشی زمین کی نمی سے ہوئی یا بارش کے پانی سے ہوئی، تو اس صورت میں عشر یعنی کل پیدا وار کا دسواں حصہ نکالنالازم ہوگا اور اگر زمین کی آب پاشی  آلات مثلاً ڈول ، چرسا یا ٹیوب ویل کے ذریعہ  پانی حاصل کر کے کی گئی ، تونصف عشر یعنی کل پیدا وار کا بیسواں حصہ ادا کرنا واجب ہوگا۔

   بہارِ شریعت میں ہے:”عشری زمین سے ایسی چیز پیدا ہوئی جس کی زراعت سے مقصود زمین سے منافع حاصل کرنا ہے تو اُس پیداوار کی زکاۃ فرض ہے اور اس زکاۃ کا نام عشر ہے یعنی دسواں حصہ کہ اکثر صورتوں میں دسواں حصہ فرض ہے، اگرچہ بعض صورتوں میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ لیا جائے گا۔“(بھارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 916، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اسی میں ہے:” عشر میں سال گزرنا بھی شرط نہیں، بلکہ سال میں چند بار ایک کھیت میں زراعت ہوئی تو ہر بار عشر واجب ہے۔ اس میں نصاب بھی شرط نہیں، ایک صاع بھی پیداوار ہو تو عشر واجب ہے۔ “ (بھارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 917، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاویٰ فیض الرسول میں ہے:”جو سبزیاں کہ زمین کی نمی یا بارش کے پانی سے پیدا ہوں ،ان میں کل پیداوار کا عشر یعنی دسواں حصہ زکوٰۃ نکالنا واجب ہے اور جو ڈول ،چرسے یا مشین وغیرہ سے سیراب کر کے پیدا کی جائیں ،ان میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب ہے۔ “(فتاوی فیض الرسول، جلد1،صفحہ504، شبیرا برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم