مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Aqs-1560
تاریخ اجراء: 16 رجب
المرجب 1440 ھ/24 مارچ 2019 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے
دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گھروں میں
کام کاج کرنے والی خواتین کو زکوٰۃ اور عام نفلی
صدقات دیے جاسکتے ہیں ؟ اگر دیے جاسکتے ہیں ، تو اُن کو
بتا کر ہی دینے ہوں گے یا بغیر بتائے بھی دے سکتے ہیں
؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
گھر میں کام کاج کرنے والی خاتون
اگر فقیرِ شرعی ہے ، تو اسے زکوٰۃ ، صدقاتِ واجبہ ( صدقہ
فطر و نذر و کفارہ وغیرہ) اور نفلی صدقات دیے جاسکتے ہیں
اور اگر کام کرنے والی وہ خاتون فقیرِ شرعی نہیں ، تو اسے
زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ نہیں دے سکتے ، ان کے علاوہ نفلی
صدقہ دے سکتے ہیں اور صدقہ چاہے زکوٰۃ ہو یا کوئی
سا بھی ، بغیر بتائے بھی مستحق کو دیا جاسکتا ہے ،
دینے والے کی نیت کافی ہے ۔
اللہ عز وجل قرآنِ
مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ
وَالْمَسٰکِیۡنِ ۔۔۔ ﴾ ترجمۂ کنز الایمان : ” زکوٰۃ تو
انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج
اور نرے نادار ۔۔۔ “( پارہ
10 ، سورۃ التوبہ ، آیت 60)
فقیر کے مستحقِ زکوٰۃ ہونے کے
متعلق تنویر الابصار مع در مختار میں ہے : ” مصرف
الزکوٰۃ و العشر ۔۔۔ ھو فقیر “ ترجمہ : زکوٰۃ اور عشر کا مستحق فقیر
ہے ۔
اس کے تحت رد المحتار میں فقیر کے صدقاتِ
واجبہ کا مستحق ہونے کے متعلق ہے : ” وھو مصرف ایضاً
لصدقۃ الفطر و الکفارۃ و النذر و غیر ذلک من الصدقات
الواجبۃ “ ترجمہ : فقیر صدقہ فطر ، کفارے ، نذر اور
دیگر صدقاتِ واجبہ کا بھی مستحق ہے ۔( رد
المحتار علی الدر المختار ، کتاب الزکوٰۃ ، باب المصرف ، جلد 3
، صفحہ 333 ، مطبوعہ کوئٹہ )
زکوٰۃ
کا بتا کر دینا ضروری نہیں ۔ جیسا کہ رد المحتار
میں ہے : ” لا
اعتبار للتسمية فلو سماها هبة او قرضا تجزيه في الأصح “ ترجمہ : زکوٰۃ میں نام لینے کا
اعتبار نہیں ، لہٰذا اگر کسی نے گفٹ یا قرض کہہ کر
زکوٰۃ دی ، تو اصح قول کے مطابق زکوٰۃ ادا ہوجائے
گی ۔( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب
الزکوٰۃ ، جلد 3 ، صفحہ 222 ، مطبوعہ کوئٹہ )
مالدار کو صدقاتِ
واجبہ دینے کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت
مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے
ہیں : ” صدقہ واجبہ مالدار کو
لینا حرام اور دینا حرام اور اس کے دیے ادا نہ ہوگا ۔ “ (
فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 261 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور
)
زکوٰۃ وغیرہ کسی بھی
نام سے دینے کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت علیہ
الرحمۃ الحدیقۃ الندیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں : ” قال الفقھاء فیمن دفع
الزکاۃلفقیروسماھا قرضا صح لان العبرۃ بالمعنی لاباللفظ
وکذٰلک الصدقۃ علی الغنی ھبۃ والھبۃ
علی الفقیر صدقۃ ( ترجمہ : ) فقہائےکرام نے فرمایا کہ اگر کوئی
شخص اپنی زکوۃ کسی کو قرض کا نام لے کر دے ، تو صحیح ہوگا
، کیونکہ معنی کا اعتبار ہوتا ہے ، لفظوں کا اعتبار نہیں ہوتا
اور یونہی نفلی صدقہ کسی غنی کو ہبہ کے نام سے
یا فقیر کو صدقہ ہبہ کے نام سے دینا (یاہبہ صدقہ کے نام
سے) دینا صحیح ہے ۔
“ ( فتاویٰ رضویہ ،
جلد 13 ، صفحہ 593 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟