Jis Sone Par Zakat Farz Thi Usey bech Diya Tu Zakat Ka Kya Hukum Hai ?

جس سونے پر زکوٰۃ فرض تھی اسے بیچ دیا تو زکوٰۃ کا کیا حکم ہے ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12565

تاریخ اجراء:        29ربیع الآخر1444 ھ/25نومبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے سونے کی تین سال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی پھر اس سونے کو بیچ کر اس کی ساری رقم خرچ کر ڈالی، تو کیا زید کے ذمہ اب بھی اس سونے کی زکوٰۃ فرض ہی رہے گی؟ زید پہلے بھی صاحب نصاب تھا   اور اب بھی صاحب نصاب ہی ہے اور زکوۃ اس پر فرض ہوتی ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد مال کو ہلاک کردینے سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوتی، لہذا پوچھی گئی صورت میں اس سونے کی زکوٰۃ بدستور زید پر فرض ہے، پس زید  اپنے ذمہ پر لازم زکوٰۃ ادا کرے نیز بلا وجہ شرعی زکوٰۃ کی ادائیگی میں جو تاخیر ہوئی ہے اس گناہ سے توبہ بھی کرے۔

   فتاوٰی عالمگیری، فتاوٰی سراجیہ، نہایہ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”والنظم للاول“ وإن هلك المال بعد وجوب الزكاة سقطت الزكاة، وفي هلاك البعض يسقط بقدره هكذا في الهداية۔ ولو استهلك النصاب لا يسقط هكذا في السراجية۔“یعنی اگر زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد مال خود بخود ہلاک ہوگیا تو زکاۃ ساقط ہوجائے گی، بعض مال خود بخود  ہلاک ہونے کی صورت میں اتنی ہی مقدار میں زکاۃ ساقط ہوجائے گی، جیسا کہ ہدایہ میں مذکور ہے۔ البتہ اگر کسی نے زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد نصاب کو  ہلاک کر دیا، تو اب زکوٰۃ ساقط نہ ہو گی۔(فتاوٰی عالمگیری، مسائل شتی فی الزکاۃ، ج 01، ص180، مطبوعہ پشاور )

   تحفۃ الفقہاء میں ہے:”أنه إذا أتلف مال الزكاة فإنه يضمن قدر الزكاۃ لأنه أتلف حقا مستحق الأداء عليه “ یعنی جب کوئی شخص زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد مالِ زکوٰۃ کو تلف کردے تو  زکاۃ کی مقدار کا ضامن ہوگا، کیونکہ اس نے اس حق کو تلف کیا ہے کہ جس کی ادائیگی اس پر لازم ہوچکی تھی۔(تحفة الفقهاء، کتاب الزکاۃ، ج 01، ص 306، دار الكتب العلمية، بيروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” جبکہ مال پر سال گزرگیا اور زکوٰۃ واجب الاداء ہوچکی اور ہنوز نہ دی تھی کہ مال کم ہوگیا، یہ تین حال سے خالی نہیں کہ سببِ کمی استہلاک ہوگا یا تصدّق یا ہلاک(پہلی صورت)استہلاک کے یہ معنی کہ اس نے اپنے فعل سے اُس رقم سے کچھ اتلاف، صرف کر ڈالا، پھینک دیا، کسی غنی کو ہبہ کر دیا ۔۔۔۔اب صورتِ اُولیٰ یعنی استہلاک میں جس قدر زکوۃ سال تمام پر واجب ہولی تھی،اس میں سے ایک حبّہ نہ گھٹے گا یہاں تک کہ اگر سارا مال صرف کردے اور بالکل نا دار محض ہوجائے تاہم قرضِ زکوٰۃ بدستورہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 10، ص91-90، رضا فاؤنڈیشن، لاہور،ملخّصاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:” سال پورا ہونے پراگر اپنے فعل سے ہلاک کیا مثلاً صرف کر ڈالا یا پھینک دیا یا غنی کو ہبہ کردیا ، تو زکاۃ بدستور واجب الادا ہے ایک پیسہ بھی ساقط نہ ہوگا اگرچہ بالکل نادار ہو۔“(بہارِ شریعت، ج01، ص 889،مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملخصاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم