مجیب: فرحان احمد
عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-547
تاریخ اجراء: 17ربیع الاول1444 ھ /14اکتوبر2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر مذکورہ شخص کے
پاس واقعی مذکورہ زمین کے علاوہ حاجت سے زائد
کوئی ایسا مال نہیں ہےجس کی مالیت کم از کم ساڑھے
باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تواسے زکوۃ
دی جاسکتی ہے جبکہ وہ
ہاشمی نہ ہو۔
اس مسئلے کی
تفصیل یوں ہے کہ جس شخص کی ملکیت میں
آمدنی حاصل کرنے والی زمین اگرچہ کروڑوں کی مالیت
کی موجودہولیکن اس زمین کی آمدنی اُسے اور اس کے
عیال کوکفایت نہ کرتی ہوتوامام محمدعلیہ الرحمہ کے قول کے
مطابق اس کو زکٰوۃ دی جاسکتی ہے ، اور سیدی
اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے جدالممتارمیں امام محمد علیہ
الرحمہ کے اس قول کے مفتی بہ ہونے کی صراحت بھی کی
ہے لہٰذا صورت مسئولہ میں جبکہ مذکورہ شخص غیرہاشمی ہو
اور اس کے پاس فی الحال گزربسر کرنےکے لیے حاجت اصلیہ سےز
ائدکوئی چیز موجودنہیں ہوتو اس مفتی بہ قول کے مطابق اس
کوزکٰوۃ دیناجائزہے ۔
عالمگیری میں ہے:”لوکان لہ حوانیت اودارغلۃ
تساوی ثلاثۃ آلاف درھم وغلتھالاتکفی لقوتہ وقوت عیالہ
یجوز صرف الزکاۃ الیہ فی قول محمد“ یعنی اگر
کسی کی ملکیت میں آمدنی والی دکان
یاگھر ہوجوتین ہزاردرھم کی مالیت رکھتاہولیکن اس
کی آمدنی اسے اور اس کے عیال کو کافی نہ ہوتو امام محمد
کے نزدیک اس پر زکٰوۃ صرف کرناجائزہے۔(فتاوی عالمگیری ،
جلد1،صفحہ189،مطبوعہ :پشاور)
ردالمحتارمیں ہے:”من لہ حوانیت ودور
للغلۃ لکن غلتھالاتکفیہ ولعیالہ انہ فقیر ویحل لہ
اخذ الصدقۃ عندمحمد “ یعنی جس کی ملکیت میں
آمدنی والی دکانیں یا زمینیں ہوں اوراس
کی آمدنی اسے اوراس کے عیال کوکفایت نہ کرے تواس کے
لیے صدقات واجبہ لیناامام محمد کے نزدیک جائزہے ۔(ردالمحتار،جلد3، صفحہ346 ،مطبوعہ:
کوئٹہ)
جدالممتارمیں امام محمدکے قول کے مفتی بہ ہونے کوبیان کرتے
ہوئے فرمایا:”وعلیہ الفتوی“ یعنی امام محمدکے قول پر
فتوی ہے
۔(جدالممتار،جلد4،صفحہ172،
مکتبۃ المدینہ،کراچی)
صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی
امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”جس کے پاس مکان یا دکان ہے جسے کرایہ پر اٹھاتا ہے اور
اُس کی قیمت مثلاً تین ہزار ہو مگر کرایہ اتنانہیں
جو اُس کی اور بال بچوں کی خورش کو کافی ہو سکے تو اُس کو
زکاۃ دے سکتے ہیں۔ یوہیں اس کی مِلک
میں کھیت ہیں جن کی کاشت کرتا ہے، مگر پیداوار
اتنی نہیں جو سال بھر کی خورش کے لیے کافی ہو اُس
کو زکاۃ دے سکتے ہیں، اگرچہ کھیت کی قیمت دو سودرم
یا زائد ہو۔“ (بہارشریعت ،جلد1،صفحہ929،مکتبۃ المدینہ،
کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟