Jis Shakhs Ka Maal Company Lekar Bhag Jaye To Kya Wo Shakhs Zakat Le Sakta Hai?

جس شخص کا مال کمپنی لے کر بھاگ جائے، تو کیا وہ شخص زکوٰۃ لے سکتا ہے؟

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-10610

تاریخ اجراء:13رمضان المبارک1442 ھ/ 26اپریل2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگرکسی شخص نے کسی کمپنی میں سرمایہ کاری کی ہے اوروہ سرمایہ ضرورت سے زائداور نصاب کے برابر یااس سے زائدہے،لیکن بعدمیں کمپنی اس کاساراسرمایہ لے کربھاگ جاتی ہے اوراس سے سرمایہ  کےملنے کی امیدنہیں رہتی اوراس سرمائے کے علاوہ اوررقم یاسامان یاجائیدادوغیرہ نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ صاحب نصاب بن سکے ،توکیااس سرمائے کی وجہ سے کمپنی کے بھاگنے کے بعدوہ زکوٰۃ لے سکتاہے یانہیں لے سکتا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایساشخص صرف بوقتِ حاجت بقدرحاجت زکوٰۃ لے سکتاہے،اس سے زیادہ نہیں لے سکتااوربہتریہ ہے کہ بوقت حاجت قرض لے کرگزاره کرے، لیکن اگرقرض نہ لے اورزکوٰۃ لے تواس کے لیے اس کی گنجائش ہے،کیونکہ یہ شخص،ابن السبیل(ایسامسافرجواپنے مال سے انتفاع پرقادرنہ ہو)کے حکم میں ہے اورابن السبیل کایہی حکم ہے۔

   فتح القدیرمیں ہے:’’ (قوله وابن السبيل) وهو المسافر۔۔۔ فيجوز له أن يأخذوإن كان له مال في وطنه لا يقدر عليه للحال، ولا يحل له أن يأخذ أكثر من حاجته، والأولى له أن يستقرض إن قدر ولا يلزمه ذلك لجواز عجزه عن الأداء، وألحق كل من هو غائب عن ماله وإن كان في بلده ولا يقدر عليه به‘‘ترجمہ:اورزکوٰۃ کاایک مصرف ابن السبیل ہے اورابن السبیل  سے مرادمسافرہے تواس کے لیے زکوٰۃ لیناجائزہے،اگرچہ اس کے وطن میں اس کامال ہوجس پروہ فی الحال قادرنہ ہواوراس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنی حاجت سے زائدزکوٰۃ لے، اوربہتریہ ہے کہ اگروہ قرض لے سکتاہوتوقرض لے اوراس پرقرض لینالازم نہیں ہے ،کیونکہ ہوسکتاہے کہ وہ قرض کی ادائیگی سے عاجزآجائے اور ہر وہ شخص کہ جواپنے مال سے دورہو،اگرچہ وہ اپنے شہرمیں ہی ہواوراسے مال پرقدرت نہ ہو،تووہ بھی ابن السبیل کے ساتھ ہی لاحق ہے ۔(فتح القدیر،ج02،ص264،265،دارالفکر،بیروت)

   بنایہ شرح ہدایہ میں  ابن السبیل کی وضاحت یوں ہے:’’ وفي " جوامع الفقه ": هو الغريب الذي ليس في يده شيء وإن كان له مال في بلده ومن له ديون على الناس ولا يقدر على أخذها لغيبتهم ۔۔۔ أو لإعسارهم أو لتأجيله يحل له أخذها.‘‘ ترجمہ : اور جوامع الفقہ میں ہے :ابن السبیل وہ مسافرہے جس کے قبضہ میں کچھ نہ ہو،اگرچہ اس کے شہرمیں اس کامال ہواوروہ شخص بھی ہےجس کے لوگوں پر قرضے ہوں اوروہ ان سے لینے پرقادرنہ ہوان کے غائب ہونے کی وجہ سے یاتنگدست قراردئیے جانے کی وجہ سے یادَین کی میعادمقررکرنے کی وجہ سے ،تواس کے لیےزکوٰۃلیناحلال ہے ۔(البنایۃ شرح الھدایۃ،ج03،ص457،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

   بحرالرائق میں ہے:’’ وفي المحيط، وإن كان تاجرا له دين على الناس لا يقدر على أخذه، ولا يجد شيئا يحل له أخذ الزكاة؛ لأنه فقير يدا كابن السبيل اهـ.‘‘ ترجمہ:اورمحیط میں ہے :اوراگرکوئی تاجرہوجس کالوگوں پردَین ہو،جس کولینے پروہ قادرنہ ہواوراس کے پاس کچھ نہ ہو،تو اس کے لیے زکوٰۃلیناحلال ہے، کیونکہ وہ قبضے کے اعتبارسے فقیرہے،ابن السبیل کی طرح۔(بحرالرائق،ج02،ص260،دارالکتاب الاسلامی ،بیروت)

   درمختارمیں زکوٰۃ کے مصارف شمارکرتے ہوئے فرمایا:’’(وابن السبيل وهو) كل (من له ماله لا معه) ومنه ما لو كان ماله مؤجلا أو على غائب أو معسر أو جاحد ولو له بينة في الأصح ‘‘ ترجمہ:اورزکوٰۃ  کاایک مصرف ابن السبیل ہے اورابن السبیل  سے مراد ہروہ شخص ہے جس کامال اس کے پاس نہ ہواوراسی سے تعلق ہے اس کاکہ جس کامال ایک مدت تک کے لیے کسی پرقرض ہویاغائب پرقرض ہو یاتنگدست پرہویاانکارکرنے والے پرہو،اگرچہ اس کے پاس گواہ ہوں زیادہ صحیح قول کے مطابق۔

   اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے:’’ (قوله: ومنه ما لو كان ماله مؤجلا) أي إذا احتاج إلى النفقة له أخذ الزكاة قدر كفايته إلى حلول الأجل نهر عن الخانية (قوله أو على غائب) أي ولو كان حالا لعدم تمكنه من أخذه ط۔۔۔(قوله: ولو له بينة في الأصح) نقل في النهر عن الخانية أنه لو كان جاحدا وللدائن بينة عادلة لا يحل له أخذ الزكاة، وكذا إن لم تكن البينة عادلة ما لم يحلفه القاضي، ثم قال ولم يجعل في الأصل الدين المجحود نصابا، ولم يفصل بين ما إذا كان له بينة عادلة أو لا. قال السرخسي: والصحيح جواب الكتاب أي الأصل إذ ليس كل قاض يعدل، ولا كل بينة تقبل، والجثو بين يدي القاضي ذل وكل أحد لا يختار ذلك وينبغي أن يعول على هذا كما في عقد الفرائد. اهـ.قلت: وقدمنا أول الزكاة اختلاف التصحيح فيه، ومال الرحمتي إلى هذا وقال بل في زماننا يقر المديون بالدين وبملاءته ولا يقدر الدائن على تخليصه منه فهو بمنزلة العدم.‘‘ ترجمہ: اورابن السبیل  کی قسم سے ہی وہ بھی ہے ،جس کامال ایک مدت تک کے لیے کسی پرقرض ہو یعنی جب وہ نفقے کامحتاج ہوگا،تواس کے لیے قرض کی مدت آنے تک بقدرکفایت زکوٰۃ لیناجائزہوگا۔یہ نہرمیں خانیہ کے حوالے سے ہے ۔یااس کاقرض ،غائب پرہویعنی اگرچہ قرض غیرمیعادی ہو،اس کوزکوٰۃ لینااس لیے جائزہے کہ وہ اپناقرض وصول کرنے پرقادرنہیں ہے یاانکارکرنے والے پراس کاقرض ہو،اگرچہ اس کے پاس گواہ ہوں زیادہ صحیح قول کے مطابق۔نہرمیں خانیہ کے حوالے سے نقل کیاگیاہے کہ اگرمدیون انکارکررہاہواورقرض دینے والے کے پاس عادل گواہ ہوں تواس کے لیے  زکوٰۃ لیناحلال نہیں ہے اوراسی طرح اگرگواہ عادل نہ ہوتوجب تک قاضی اس سے حلف نہ لے لے اس وقت تک زکوٰۃنہیں لے سکتا۔پھرانہوں نے کہا: اور کتاب الاصل میں ،جس دَین سے انکارکردیاگیاہواسے نصاب نہیں بنایااوراس بات کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی کہ اس کے پاس عادل گواہ ہوں یانہ ہوں۔امام سرخسی نے فرمایا:اورصحیح کتاب یعنی اصل کاجواب ہے کیونکہ ہرقاضی انصاف نہیں کرتااورنہ ہرگواہ کوقبول کیاجاتاہے اورقاضی کے سامنے گھٹنے ٹیکناذلیل ہوناہے اورہرایک اسے اختیارنہیں کرتااوراسی پراعتمادہوناچاہیے جیساکہ عقدالفرائدمیں ہے ۔(نہرکی عبارت ختم ہوئی۔) میں کہتاہوں :اورہم نے پیچھے کتاب الزکاۃ کی ابتداء میں  ذکرکیاہے کہ اس میں تصحیح کااختلاف ہے اورعلامہ رحمتی کامیلان اس طرف ہے اورانہوں نے کہا: بلکہ ہمارے زمانے میں مدیون دَین کااوراپنے غنی ہونے کااقرارکرتاہے اس کے باوجوددَین دینے والااس سے دَین نکلوانے پرقادرنہیں ہوتاتویہ قرض معدوم کے قائم مقام ہے۔(الدرالمختارمع ردالمحتار،ج02،ص343،344،دارالفکر،بیروت)

   بہارشریعت میں ہے:’’ ابن السّبیل یعنی مسافر جس کے پاس مال نہ رہا زکاۃ لے سکتا ہے، اگرچہ اُس کے گھر مال موجود ہو ،مگر اُسی قدر لے جس سے حاجت پوری ہو جائے، زیادہ کی اجازت نہیں۔ یوہیں اگر مالک نصاب کا مال کسی میعاد تک کے لیے دوسرے پر دَین ہے اور ہنوز میعاد پوری نہ ہوئی اور اب اُسے ضرورت ہے یا جس پر اُس کا آتا ہے وہ یہاں موجود نہیں یا موجود ہے، مگر نادار ہے یا دَین سے منکر ہے، اگرچہ یہ ثبوت رکھتا ہو،تو ان سب صورتوں میں بقدرِ ضرورت زکاۃ لے سکتا ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ قرض ملے تو قرض لے کر کام چلائے۔ ‘‘(بھارشریعت،ج01،حصہ05،ص926،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم