Jin Ko Zakat Dena Jaiz Nahi Unhen Heela Kar Ke Zakat Dena Kaisa ?

جن کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں، ان کو حیلہ کرکے زکوٰۃ کی رقم دینا

مجیب:مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1597

تاریخ اجراء:09رمضان المبارک1445 ھ/20مارچ2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جن کو زکوٰة نہیں دے سکتے جیسے بیوی،  بیٹا وغیرہ یا کوئی سید زادہ تو اب اگر ان میں سے کوئی مستحق ہو، تو کیا شرعی حیلہ کرکے ان کو وہ رقم دے سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیوی  اور بیٹے کوحیلہ شرعی کرواکر زکوۃ دیناجائزنہیں۔ اگربالفرض یہ محتاج ہوں تو ان کی ضروریات پوری کرنا ویسے ہی لازم ہے۔  جہاں تک ساداتِ کرام کے بارے میں سوال ہے تو  سید شرعی فقیر کو بھی  زکوٰۃدینا تو جائز نہیں کہ یہ لوگوں کے مال کا میل ہے۔ لہٰذا سادات کرام کی  زکوۃ کے علاوہ صاف مال سے خدمت کرنی چاہیے۔ ہاں اگر ایسا نہ ہو یعنی صاف مال سے خدمت کی صورت نہ بنےاس لئے شرعی حیلہ کیا گیا یعنی کسی غیر سید شرعی فقیر کو زکوٰۃ  کی رقم کا مالک بنایا گیا اور اس نے اپنی طرف سے سید کو یہ رقم پیش کر دی تو اب اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ بہترہے کہ سادات ِکرام کو حیلے کے بغیرہی صاف ستھرامال پیش کیا جائے۔

   ساداتِ کرام کی خدمت کے کیا کہنے ہیں، یہ بہت بڑی سعادت ہے اوردنیا میں ساداتِ کرام کی خدمت کرنے والے کو قیامت میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ  وسلم اپنے دستِ رحمت سےصلہ عنایت عطا فرمائیں گےبلکہ ایک حدیث شریف سے تو ساداتِ کرام کی خدمت کرنے کے بدلے بروزِ قیامت حضورصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت وملاقات ہونے کی خوشخبری کی طرف اشارہ ملتا ہے اس سے بڑھ کر مسلمانوں کو اور کیا چاہئے، لہٰذا جو حضرات مالدار ہونے کے باوجود  اپنے خالص مالوں سے بطورِ ہدیہ ان حضرات کی خدمت نہ کریں تو ان مالداروں کی بےسعادتی ومحرومی ہے انہیں چاہئے کہ دل کھول کر امدادوخیرخواہی کریں اور جو لوگ زیادہ مالدار نہ ہوں وہ بھی بقدرِ گنجائش ساداتِ کرام کی خدمت کریں۔

   چنانچہ آلِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ  وسلم کی خدمت کی فضیلت کے متعلق کنز العمال میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من صنع الی احد من اھل بیتی یداً کَافَاتُہ علیھا یوم القیامۃ “یعنی جو  میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں روزِ قیامت اس کا صلہ اسے عطا فرماؤں گا۔(کنزالعمال،جلد12،صفحہ45،مطبوعہ: ملتان)

   حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:”من صنع صنیعۃ الی احد من خلف عبد المطلب فلم یکافہ بھا فی الدنیا فعلیّ مکافتہ اذا لقینی“یعنی جو شخص اولادِ عبد المطلب میں سے کسی کے ساتھ دنیا میں نیکی کرے اور اسے اس کا دنیا میں اس کا صلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وہ روزِ قیامت مجھ سے ملے گا۔(کنزالعمال،جلد12،صفحہ45،مطبوعہ: ملتان)

   اس حدیث کے متعلق امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”خود یہی صلہ کروڑوں صلے سے اعلیٰ وانفس ہے جس کی طرف کلمہ کریمہ”اذا لقینی“اشارہ فرماتا ہے بلفظِ اذاتعبیر فرمانا بحمد اللہ روزِ قیامت وعدہِ وصال (یعنی ملاقات)ودیدارِ محبوب ذوالجلال(یعنی زیارت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)کا مژدہ(یعنی خوشخبری)سناتا ہے۔ مسلمانو! اور کیا درکار ہے؟دوڑو اور اس دولت وسعادت کو لو۔“(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ105،رضافاؤنڈیشن لاہور)

   نوٹ:ساداتِ کرام کی خدمت کی تفصیلی معلومات کے لئے فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ105تا109کا مطالعہ کریں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم