مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری
فتوی نمبر:WAT-348
تاریخ اجراء:18جُمادَی الاُولٰی1443ھ/23دسمبر
2021
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ہم دو پلاٹ قسطوں پر خریدنا چاہتے ہیں، ایک پر مکان
بنائیں گے اور ایک
پلاٹ کو سیل کر کے اس
سے حاصل ہونے والی رقم
سے گھر تعمیر
کریں گے۔ پوچھنا
یہ ہے کہ ان پر زکوٰۃ
کا کیا حکم ہو گا؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زمین ، پلاٹ یا
جائیداد وغیرہ پر اسی صورت میں زکوٰۃ ہوتی
ہے کہ جب اسے بیچنے کی نیت
سے خریدا ہو، ورنہ اس پر زکوٰۃ نہیں ہو گی،
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جو
پلاٹ گھر بنانے کے لیے خریدا جائے گا، اس پر زکوٰۃ فرض نہیں
ہو گی اور جو پلاٹ آپ اس نیت
سے خریدیں گے کہ اسے سیل کریں، تو اس کی زکوٰۃ
سال بہ سال فرض ہوگی،جبکہ قرض اور حاجاتِ اصلیہ (ضرورت کی چیزوں
مثلاً رہنے کا مکان،پہننے کے کپڑے وغیرہ)کو نکالنے کے بعد آپ مالکِ نصاب
بنتے ہوں اورزکوٰۃ کی ادائیگی میں قیمتِ خرید کا اعتبار نہیں،بلکہ
جس تاریخ کونصاب پرقمری سال مکمل ہورہاہے،اُس دن کی قیمت
کااعتبارکیا جائےگا مثلاًآپ نےوہ پلاٹ 5لاکھ کا خریدا تھا اور جب نصاب
پر قمری سال مکمل ہوا،تو اب اُس کی قیمت 7لاکھ ہے،تو7لاکھ کے
حساب سے اُس کی زکوٰۃ دینی ہوگی،لیکن
چونکہ بندےپرجتناقرض ہو،اُتنے پرزکوٰۃ نہیں ہوتی،
لہٰذااگرآپ کےنصاب کاقمری سال مکمل ہواوراُس وقت
آپ پرپلاٹ کی کچھ رقم بصورتِ
قسط قرض ہو،تو جتنی اقساط باقی ہوں،انہیں منہا (مائنس)کر کےجو قیمت
بچے، وہ اور دیگراموالِ زکوٰۃ کا حساب کرکےزکوٰۃ
ادا کرنا فرض ہو گی،یوں ہی
اگر آیندہ سال بھی کچھ اقساط باقی ہوئیں، تو جتنی
قسطیں رہتی ہوں گی،وہ مالِ زکوۃ سے منہاہوں گی وعلی
ھذالقیاس(اسی پراگلے سالوں کی زکوٰۃ کو قیاس
کر لیں)۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟