مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی
نمبر: Aqs-2231
تاریخ اجراء: 25 شعبان المعظم 1443ھ/29 مارچ 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے
دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک
شخص نے گندم کی کاشت کی ، پھر وہ فصل مکمل پکنے سے پہلے بھینسوں
کے چارے کے لیے بیچ دی ، تو کیا اس پر عشر ہو گا؟
نوٹ : فصل اتنی تیار
ہو چکی تھی کہ اس کے بعد اس کے خراب ہونے کا اندیشہ نہیں
رہتا ، البتہ مکمل پکنا باقی تھا ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اس فصل پر عشر لازم
تھا ،کیونکہ فصل جب نفع اٹھانے کے قابل ہو جائے ، اگرچہ کٹنے کے قابل نہ
ہوئی ہو ، اس پر عشر لازم ہو جاتا ہے ۔ اب جبکہ اسے کاشتکار نے
بیچ دیا ، تو اس پر لازم ہے کہ وہ فصل جتنی رقم میں
بیچی ، اس رقم کا دسواں یا بیسواں حصہ عشر کے طور پر ادا کرے
۔
فصل میں عشر کس وقت لازم ہوتا ہے ، اس کے متعلق رد
المحتار میں ہے : ”العشر فی الثمار
والزرع ۔۔۔ یجب عند ظھور الثمرۃ والامن علیھا
من الفساد وان لم یستحق الحصاد ، اذا بلغت حدا ینتفع بھا ،
ملخصا “ ترجمہ : پھل اور کھیتی جب ظاہر ہو
جائیں اور ان کے خراب ہونے کا خطرہ نہ رہے ، تو ان میں عشر واجب ہو
جاتا ہے ، اگرچہ ابھی کٹنے کے قابل نہ ہوئے ہوں بشرطیکہ اس حد تک پہنچ
چکے ہوں کہ ان سے نفع اٹھایا جا سکتا ہو ۔(رد المحتار علی الدر
المختار ، ج3 ، ص321 ، مطبوعہ کوئٹہ)
عشر واجب ہونے کے بعد ادا
کیے بغیر فصل بیچ دی ، تو کاشتکار کے ذمے عشر ادا کرنا
لازم رہے گا ۔ چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام
احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد
فرماتے ہیں : ” بہار اس وقت بیچنی چاہئے ، جب پھل ظاہر ہو
جائیں اور کسی کام کے قابل ہوں، اس سے پہلے بیع جائز نہیں
اور اس وقت اُس میں عشر واجب ہوتا ہے ، (جب) پھل اپنی حد کو پہنچ
جائیں کہ اب کچّے اور ناتمام ہونے کے باعث
ان کے بگڑ جانے ، سُوکھ جانے ، مارے جانے کا اندیشہ نہ رہے ، اگرچہ
ابھی توڑنے کے قابل نہ ہُوئے ہوں ۔ یہ حالت جس کی مِلک میں پیدا ہو گی ، اُسی پر عشر
ہے۔ بائع کے پاس پھل ایسے ہو گئے تھے ، اُس کے بعد بیچے ، تو
عشر بائع (بیچنے والے) پر ہے اور جو اس حالت تک پہنچنے
سے پہلے کچے بیچ ڈالے اور اس حالت پر مشتری کے پاس پہنچے ، تو عشر
مشتری (خریدار) پر ہے ۔ بعینہٖ یہی
حکم کھیتی کا ہے۔ “(فتاوٰی
رضویہ ، ج10 ، ص241 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
صدر الشریعہ
مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں : ” عشر اس وقت لیا جائے ، جب پھل نکل آئیں اور کام کے قابل
ہو جائیں اور فساد کا اندیشہ جاتا رہے، اگرچہ ابھی توڑنے کے لائق
نہ ہوئے ہوں۔۔۔ اور بیچنے کے وقت زراعت (فصل) طیار
(تیار) تھی ، تو عشر بائع پر ہے ۔ ملخصا “ (بھارِ
شریعت ، حص5 ، ج1 ، ص920،919 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟