Fasal Ke Akhrajat Paidawar Se Zaid Hogaye To Usher Wajib Hoga Ya Nahi?

فصل کے اخراجات پیداوار  سے زائد ہوگئے تو عشر واجب ہوگا یا نہیں؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12895

تاریخ اجراء:17ذوالحجۃ الحرام1444ھ/06جولائی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے تجارت کی غرض سے اپنی زمین میں پیاز کاشت کیا  ۔  پانی دینے کے لئے سولر پلیٹ خریدی اور اس کے ذریعہ ٹیوب ویل چلا کر اسے پانی دیا  ۔  اس فصل کی کاشت میں تقریبا 31 ہزار روپے کے اخراجات آئے (جس میں سولر پلیٹ،سولر پمپ،کاشت کے لئے پیاز کے پودے اور مزدوری شامل ہے)تین ماہ کی محنت کے بعد اس سے صرف گیارہ کلو پیاز حاصل ہوئی جس کی قیمت جب پیاز زمین سے نکال لی گئی اس وقت تقریباً 550 روپے بنتی تھی ۔اب سوال یہ ہے کہ فصل کی کاشت پر آنے والے اخراجات اور حاصل ہونے والی فصل کی مقدار اور قیمت کو دیکھتےہوئے کیا اس شخص پر عشر لازم ہوگا جبکہ اس زمین سے حاصل ہونے والا پیاز مقدار اور معیار میں اتنا نہیں تھا کہ اسے  بیچا جاتا،  اس لئے  گھر ہی میں استعمال کر لیا گیا؟

   نوٹ: پیاز کھیت میں ہی کاشت کیا تھا، گھر کے صحن میں کاشت نہیں کیا تھا ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عشر واجب ہونے کے لئے نصاب شرط نہیں بلکہ حاصل ہونے والی فصل کم ہو یا زیادہ اس میں عشر یا نصف عشر لازم ہوگالہٰذا پوچھی گئی صورت میں زمین سے پیاز کی صورت میں جتنی بھی پیدا وار حاصل ہوئی اگرچہ وہ گیارہ کلو ہی تھی،  اس کا نصف عشر مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ زمین کی آب پاشی اگر آلات مثلاً ڈول ، چرسا یا ٹیوب ویل کے ذریعہ  پانی حاصل کر کے کی جائے ، تونصف عشر ہی واجب ہوتا ہے۔نیز عشر یا نصف عشر مصارف و اخراجات نکالے بغیر پوری پیداوار پر ہوتا ہے ، لہٰذا پیاز کے پودے،سولر پلیٹ ، سولر پمپ اور مزدوری  غیرہ کے تمام اخراجات  اگرچہ پیدا وار سےکئی گنا زیادہ ہیں ، تب بھی حاصل ہونے والی پوری پیداوار پر نصف عشر لازم ہوگا، اس سے اخراجات مائنس نہیں کئے جائیں گے۔

   یہ بات بھی واضح رہے کہ عشر کی ادائیگی سے پہلے حاصل ہونے والی فصل کو استعمال کرنا حلال نہیں ۔ اگر استعمال کر لیا، تب بھی جتنا عشر لازم ہوا تھا اس کی ادائیگی ذمہ پر لازم رہے گی ۔

   عشر واجب ہونے کے لئے نصاب شرط نہیں لہٰذا پیدا وارکم ہو یا زیادہ ، اس میں عشر لازم ہے۔اس کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے: ”النصاب لیس بشرط لوجوب العشر فیجب العشر فی کثیر الخارج وقلیلہ“یعنی وجوبِ عشر کے لئے نصاب شرط نہیں ،لہٰذا نکلنے والی فصل زیادہ ہو یا کم،  اس میں عشر واجب ہوگا۔(بدائع الصنائع، جلد2،صفحہ 59، مطبوعہ:بیروت)

   امام قاضی اسبیجابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”انما لم یشترط النصاب عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ فی باب العشر لما ان العشر مؤنۃ الارض  النامیۃ والخارج وان قل تصیر الارض بہ نامیۃ“یعنی بابِ عشر میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نصاب شرط نہیں کیونکہ عشر نامی زمین کی مؤنت ہے اور نکلنے والی فصل اگر چہ کم ہو،اس کے سبب بھی زمین نامی قرار پاتی ہے۔(زاد الفقھاء، جلد1،صفحہ225،دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

   فتاوی اہلسنت میں ہے:”عشر پیدا وار حاصل ہونے پر واجب ہوجاتا ہے ۔اس میں نصاب کی شرط نہیں اگر ایک صاع بھی پیدا وار ہو تو عشر واجب ہے “(فتاوی اہلسنت، کتاب الزکاۃ، صفحہ 587، مکتبۃالمدینہ، کراچی)

   جس فصل میں آب پاشی آلاتِ  آب پاشی  مثلاً:ڈول ، چرسا یا ٹیوب ویل کے ذریعہ کی گئی اس میں نصف عشر لازم ہوگا۔اس کے متعلق البحر الرائق میں ہے :”یجب نصف العشر فیما سقی بآلۃ للحدیث “ یعنی جس زمین کی آب پاشی  کسی آلہ سے کی گئی ،اس میں بحکمِ حدیث نصف عشر واجب ہے۔(بحر الرائق،جلد 2،صفحہ256،مطبوعہ: بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے:”ما سقی بغرب او دالیۃ او سانیۃ ففیہ نصف العشر“یعنی جس کو چرسا، ڈول یا سانیہ(چرس ، بڑے ڈول) سے سیراب کیا گیا، تو اس میں نصف عشر ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد2،صفحہ 62، مطبوعہ:بیروت)

   فتاوی فیض الرسول میں ہے:”جو سبزیاں کہ زمین کی نمی یا بارش کے پانی سے پیدا ہوں ،ان میں کل پیداوار کا عشر یعنی دسواں حصہ زکوۃ نکالنا واجب ہے اور جو ڈول ،چرسے یا مشین وغیرہ سے سیراب کر کے پیدا کی جائیں ،ان میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب ہے “(فتاوی فیض الرسول، جلد1،صفحہ504، شبیرا برادرز، لاھور)

   جتنی فصل حاصل ہوئی اس تمام پر عشر یا نصف عشر لازم ہوگا، فصل پر ہونے والے اخراجات مائنس نہیں کئے جائیں گے اگرچہ فصل کی قیمت سے زائد ہوں۔اس کے متعلق رد المحتار میں ہے:”یجب العشر فی الاول ونصفہ فی الثانی بلا رفع اجرۃ العمال ونفقۃ البقر وکری الانھار واجرۃالحافظ  ونحو ذلک ۔درر۔قال فی الفتح :یعنی لایقال بعدم وجوب العشر فی قدر الخارج الذی بمقابلۃ المؤنۃ بل یجب العشر فی الکل“یعنی پہلی صورت میں عشر اور دوسری صورت میں نصف عشر واجب ہوگا اس سے کام کرنے والوں کی اجرت، بیل کا خرچہ، نہروں کا کرایہ، اور حفاظت کرنے والوں کی اجرت وغیرہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔درر۔ فتح القدیر میں فرمایا:نکلنے والی فصل کی وہ مقدار جو مؤنت (یعنی محنت و مشقت)کے مقابلہ میں ہے اس میں عشر واجب نہ ہونے کا قول نہیں کیا جائے گابلکہ تمام پیداوار میں عشر واجب ہوگا۔(رد المحتار، جلد 2،صفحہ 328، مطبوعہ:کوئٹہ)

   عنایہ میں ہے:”لا يقال بعدم وجوب العشر في قدر الخارج الذي بمقابلة المؤنة من حيث القيمة بل يجب العشر في كل الخارج “یعنی نکلنے والی فصل کی وہ مقدار جو باعتبارِ قیمت مؤنت (یعنی محنت و مشقت)کے مقابلہ میں ہے اس میں عشر واجب نہ ہونے کا قول نہیں کیا جائے گابلکہ نکلنے والی کل پیداوار میں عشر واجب ہوگا۔ (العنایہ علی ھامش فتح القدیر، جلد2 ،صفحہ 250،بیروت)

   بہارشریعت میں ہے: ”جس چیزمیں عشریانصف عشرواجب ہوا ، اس میں کل پیداوار کا عشریانصف عشرلیاجائےگا، یہ نہیں ہو سکتا کہ مصارفِ زراعت ، ہل بیل، حفاظت کرنے والے اور کام کرنے والوں کی اجرت یا بیج وغیرہ نکال کر باقی کا عشر یا نصف عشر دیا جائے۔“(بہارشریعت،جلد1،صفحہ918،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

   عشر کی ادائیگی سے پہلے فصل میں سے کچھ کھانا حلال نہیں ، اگر کھا لیا، تو بھی عشر کی ادائیگی ذمہ پر لازم رہے گی۔اس کے متعلق درمختار میں ہے:”لا یاکل من طعام العشر حتی یؤدی العشر وان اکل ضمن عشرہ“یعنی عشر کے غلہ سے نہ کھائے یہاں تک کہ عشر ادا کر دے اور اگر کھالیا، تو اس کے عشر کا ضامن ہوگا۔ (در مختار، جلد2،صفحہ 332،مطبوعہ:بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے:”ان اكل صاحب المال من الثمر او اطعم غيره يضمن عشره ويكون دينا فی ذمته “یعنی صاحبِ مال نے پھلوں سے کچھ کھا لیا یا کسی اور کو کھلا دیا، تو اس کے عشر کا ضامن ہوگا اور وہ عشر اس کے ذمہ دین ہوگا۔(بدائع الصنائع، جلد2،صفحہ 64، مطبوعہ:بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:”عشر ادا کرنے سے پیشتر مالک کو کھانا حلال نہیں ، کھائے گا تو ضمان دے گا ۔ یوہیں اگر دوسرے کو کھلایا ، تو اتنے عشر کا تاوان دے“ (بہارِ شریعت، جلد1،صفحہ 919، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم