Fasal Katne Se Pehle He Bech Di To Usher Khareedar Par Hoga Ya Bechne Wale Par?

فصل کاٹنے سے پہلے ہی بیچ دی ، تو عشر خریدار پر ہوگا یا بیچنے والے پر ؟

مجیب:ابوالحسن ذاکر حسین عطاری مدنی

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Har-5553

تاریخ اجراء:27شعبان المعظم1444ھ/20مارچ2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ فصل تیار ہوچکی تھی مگر ابھی کٹائی باقی تھی کہ اس سے پہلے مالک نے بیچ دی، سوال یہ ہے کہ اس صورت میں فصل کا عشر خریدار ادا کرے گا یا بیچنے والا ؟ بیان فرمادیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فصل جب اس قدر تیار ہوجائے کہ اب  اس کےبگڑنے،سوکھنے اور  خراب ہونے کا اندیشہ نہ رہے، تو اس پر عشر واجب ہوتا ہے اور جس کی مِلک میں یہ حالت پیدا ہوگی، اسی پر عشر لازم ہوگا۔ صورت مسئولہ میں چونکہ یہ حالت بائع (یعنی بیچنے والے ) کی مِلک میں پیدا ہوئی کہ اس نے فصل تیار ہونے کےبعد  فروخت کی ،لہٰذا  صورت مسئولہ میں اسی پر عشر لازم ہے، خریدار پرلازم  نہیں ۔

   عشر لازم ہونے کے متعلق درمختار میں ہے:و لو باع الزرع ان قبل ادراکہ فالعشر علی المشتری  و لو بعدہ  فعلی البائعترجمہ : اور  زراعت بیچی ،اگر پکنے سے پہلے تو عشر مشتری پر  ہے اور اگر اس کے بعد تو بائع پر ۔(درمختار مع رد المحتار ، ج 3، ص 324 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:و اذا باع الارض العشریۃ و فیھا زرع قد ادرک  مع زرعھا  او باع الزرع خاصۃ  فعشرہ علی البائع  دون المشتری اور جب عشری زمین کھیتی کے ساتھ بیچی اور کھیتی پک چکی تھی  یا خاص کھیتی فروخت کی، تو اس کا عشر بائع پر لازم ہے ، نہ کہ مشتری پر ۔(فتاوی عالمگیری، ج1، ص 187 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   آم کی بہار اور زراعت پر عشر لازم ہونے کے متعلق سیدی اعلی حضرت ،الشاہ ،امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’بہار اس وقت بیچنی چاہئے جب پھل ظاہر ہوجائیں اور کسی کام کے قابل ہوں ، اس سے پہلے بیع جائز نہیں اور اس وقت اس میں عشر واجب ہوتا ہے (جب)پھل اپنی حد کو پہنچ جائیں کہ اب کچے اور ناتمام  ہونے کے باعث ان کے بگڑجانے، سوکھ جانے ، مارے جانے کا اندیشہ  نہ رہے،  اگرچہ ابھی توڑنے کے قابل نہ ہوئے ہوں ، یہ حالت جس کی مِلک میں پیدا ہوگی اسی پر عشر ہے، بائع کے پاس  پھل ایسے ہوگئے تھے اس کے بعد بیچے تو عشر بائع  پر ہے ، اور جو اس حالت  تک پہنچنے  سے پہلے کچے بیچ ڈالے  اور اس حالت پر مشتری  کے پاس  پہنچے تو عشر مشتری پر ہے بعینہ یہی حکم کھیتی کا ہے ۔“(فتاوی رضویہ ، ج 10، ص 241 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم