Copper Aur Iron Waghera Ki Mardana Ring Zakat Me Dena Kaisa?

تانبے ،لوہے وغیرہ کی مردانہ انگوٹھی زکوٰۃ میں دینا 

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Pin-6852

تاریخ اجراء:28ربیع الآخر 1443ھ/04دسمبر 2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارےمیں  کہ (1)سونے چاندی کے علاوہ کسی دھات کی مردانہ انگوٹھی شرعی فقیر کو زکوٰۃ کے طور پر دی جا سکتی ہے یا نہیں؟(2) اور کیا اس کے دینے سے زکوۃ ادا ہو جائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں ایسی انگوٹھی زکوٰۃ کے طور پر دینا جائز نہیں ہے۔ تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے کہ انگوٹھی کا بنیادی مقصد پہننا ہے اور لوہے، تانبے، پیتل وغیرہ کی مردانہ انگوٹھی نہ تو مرد کے لیے پہننا جائز ہے اور نہ ہی عورت کے لیے۔ مرد اس لیے نہیں پہن سکتا کہ مرد کو مخصوص شرائط پر مشتمل (یعنی ساڑھے چار ماشے سے کم، مردانہ وضع کی، ایک نگ والی) چاندی کی ایک انگوٹھی پہننا جائز ہے، چاندی کے علاوہ کسی اور دھات مثلاً:سونے، لوہے، پیتل یا تانبے وغیرہ کا کوئی بھی زیور پہننا جائز نہیں ہے اور عورت اس لیے نہیں پہن سکتی کہ مردانہ ہیئت پر مشتمل ہے اور عورتوں کو وہ انگوٹھی جس کا ڈیزائن مردوں کے ساتھ خاص ہو، اسے عورتیں نہ پہنتی ہوں، ایسی انگوٹھی پہننا جائز نہیں اور شریعتِ مطہرہ کا ایک  بنیادی اصول یہ ہے کہ جن چیزوں کا استعمال جائزنہیں، ان چیزوں کو بنانا، خریدنا بیچنا اور خیرات کرنا بھی  جائز نہیں ہے کہ یہ گناہ پر تعاون ہے۔ ہاں! اگر اس میں کسی طرح ممانعت کی وجہ ختم کر دی جائے، مثلاً:اسے ڈھال کر ایسی چیز بنا لی جائے، جس کا استعمال جائز ہو، تو پھر اس کی خرید و فروخت بھی درست ہے اور اسے زکوۃ کے طور پر دینا بھی جائز ہے۔

   مرد کے لیے چاندی کے علاوہ کسی دھات کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں حضرت سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں:’’ جاء الى النبي صلى اللہ عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: ما لي اجد منك ريح الاصنام، فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: ما لي ارى عليك حلية اهل النار، فطرحه، فقال: يا رسول اللہ، من اي شيء اتخذه؟ قال: اتخذه من ورق، ولا تتمه مثقالا‘‘ ترجمہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا:'کیا بات ہے کہ تم سے بتوں کی بو آتی ہے؟ انہوں نے وہ انگوٹھی پھینک دی، پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر آئے، فرمایا:کیا بات ہے کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہوئے ہو؟ اسے بھی پھینکا اور عرض کی: یارسول اﷲ! کس چیز کی انگوٹھی بناؤں؟ فرمایا:چاندی کی بناؤ اور ایک مثقال پورا نہ کرو۔‘‘(سنن ابی داؤد، جلد 2، صفحہ 228، مطبوعہ  لاھور)

   در مختار میں ہے: ’’ان التختم بالفضۃ حلال للرجال بالحدیث وبالذھب والحدید والصفر حرام علیھم بالحدیث‘‘ترجمہ: احادیث کی رو سے چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے حلال ہے اور سونے، لوہے اور پیتل کی انگوٹھی ان پر حرام ہے۔‘‘(در مختار، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی اللبس، جلد 9، صفحہ 594، مطبوعہ  پشاور)

   سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’ہاتھ خواہ پاؤں میں تانبے، سونے، چاندی ،پیتل، لوہے کے چھلّے یاکان میں بالی یابُندا یاسونے خواہ تانبے، پیتل،لوہے کی انگوٹھی، اگرچہ ایک تارکی ہو یاساڑھے چارماشے چاندی یا کئی نگ کی انگوٹھی یاکئی انگوٹھیاں، اگرچہ سب مل کر ایک ہی ماشہ کی ہوں کہ یہ سب چیزیں مردوں کوحرام وناجائز ہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد7،صفحہ307، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مردانہ طرز کی انگوٹھی عورت کو پہننا جائز نہیں ہے کہ مردوں سے مشابہت ہے اور مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں کے متعلق بخاری شریف میں ہے: ’’لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال‘‘ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ مشابہت کرنے والے مردوں اور مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب اللباس، جلد 2، صفحہ 874، مطبوعہ  کراچی)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”مرد کو عورت ، عورت کو مرد سے کسی لباس وضع، چال ڈھال میں بھی تشبہ حرام نہ کہ خاص صورت وبدن میں۔“(فتاوی رضویہ ، جلد22، صفحہ 664، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   حتی کہ عورت کو چاندی کی مردانہ وضع کی انگوٹھی پہننا بھی جائز نہیں ہے۔چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہی ہے: ’’چاندی کی مردانی انگوٹھی عورت کو نہ چاہئے اور پہنے، تو زعفران وغیرہ سے رنگ لے۔ شیخِ محقق اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں:’’ زنان را تشبّہ برجال مکروہ است تاآنکہ انگشتری نقرہ زنان رامکروہ است واگر بکنند بایدکہ رنگ کنند بزعفران ومانند آں‘‘عورتوں کومردوں سے مشابہت اختیارکرنی مکروہ ہے اور اس کالحاظ اس حد تک ہے کہ عورتوں کوچاندی کی انگوٹھی پہننی مکروہ ہے، اگر کبھی اتفاقاً پہننی پڑے، تو اسے زعفران وغیرہ سے رنگ لے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 544، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   جب اس کا پہننا جائز نہیں ہے، تو اسے بنانا، خریدنا، بیچنا اور خیرات کرنا بھی جائز نہیں ہےکہ گناہ میں معاونت ہے۔ در مختار میں ہے:’’فاذا کراھۃ لبسھا للتختم ثبت کراھۃ بیعھا وصیغھا لما فیہ من الاعانۃ علی ما لا یجوز وکل ما ادی الی ما لا یجوز لا یجوز‘‘ ترجمہ: پس (سونے، لوہے، پیتل وغیرہ کی انگوٹھی کے متعلق ) جب ثابت ہو گیا کہ (مردوں کے لیے) اسے پہننا مکروہ (تحریمی) ہے، تو اسے بنانااور بیع کرنا بھی مکروہ ہے، کیونکہ اس میں ایسے کام پر مدد ہے جو جائز نہیں اور ہر وہ کام جو ناجائز کی طرف لے جائے، وہ جائز نہیں ہوتا۔‘‘ (در مختار، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد 9، صفحہ 595، مطبوعہ پشاور)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کا چہرہ موجود ہواور اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے سے دیکھیں تو اعضاء کی تفصیل ظاہر ہو، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پر ہو اس کا پہننا، پہنانا یا بیچنا، خیرات کرنا سب ناجائز ہے۔‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 567، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   ایک اور مقام پر ہے:یہ اصل کلی یاد رکھنے کی ہے کہ بہت جگہ کام دے گی۔ جس چیز کا بنانا ، ناجائز ہوگا، اسے خریدنا، کام میں لانا بھی ممنوع ہوگا اور جس کا خریدنا،کام میں لانا منع نہ ہوگا، اس کا بنانا بھی ناجائز نہ ہوگا۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد 23 ،صفحہ 464، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   البتہ اگر ممانعت کی وجہ ختم کر دی جائے، تو زکوۃ کے طور پر دے سکتے ہیں۔جیسا کہ جاندار کی تصویر والے کپڑے کے متعلق مزید فرمایا:’’ایسے کپڑے پر سے تصویر مٹا دی جائے یا اس کا سر یا چہرہ بالکل محو کر دیا جائے، اس کے بعد اس کا پہننا، پہنانا، بیچنا، خیرات کرنا، اس سے نماز سب جائز ہو جائے گا۔‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 567، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   (2)مذکورہ تفصیل سے یہ معلوم ہو گیا کہ گناہ پر تعاون کی وجہ سے ایسی انگوٹھی زکوۃ کے طور پر دینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کسی نے دےدی، تو (دیگر شرائط کی موجودگی میں) اس انگوٹھی کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق زکوٰۃ ادا ہو جائے گی، کیونکہ مستحقِ زکوۃ شخص کو مال کا مالک بنا دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے اور یہ بھی مال ہے، اسی لیے اس کی بیع باطل نہیں کہلاتی، بلکہ امرِ خارج (معصیت پر اعانت) کی وجہ سے مکروہ (تحریمی) ہے۔

   زکوۃ کی تعریف تنویر الابصار میں کچھ یوں بیان کی گئی ہے: ’’تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ھاشمی ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن الملک من کل وجہ للہ تعالی‘‘ ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے شارع کی طرف سے مقرر کردہ مال کے ایک جزء کا مسلمان فقیر کو مالک کر دینا، جبکہ وہ فقیر نہ ہاشمی ہو اور نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام اور اپنا نفع اس مال سے بالکل جدا کر لیا جائے۔(تنویر الابصار مع الدر المختار، جلد 3، صفحہ 203 تا 206، مطبوعہ بیروت)

   بیع مکروہ کے متعلق خاتم المحققین علامہ سید ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ ان البیع ھنا صحیح ویملک قبل القبض ویجب فیہ الثمن لا القیمۃ فلا یلی القاضی فسخہ لحصول الملک الصحیح‘‘ترجمہ: یہاں (یعنی بیع مکروہ کی صورت میں فی نفسہ)بیع صحیح ہےاور اس میں قبضہ سے پہلے ملکیت حاصل ہوجاتی ہے اور اس میں ثمن(عاقدین باہم رضا مندی سے جو ریٹ طے کرتے ہیں) واجب ہوتا ہے، نہ کہ قیمت (چیز کے معیار کے اعتبار سےاُس  کا جو ریٹ بنتا ہو)، پس قاضی اسے فسخ کرنے کا مالک نہیں ہوگا،کیونکہ متعاقدین کو ملکِ صحیح حاصل ہو چکی ہے۔ (رد المحتار مع الدرالمختار ،جلد7،صفحہ316 ،مطبوعہ  پشاور)

   اورصدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی  علیہ ا لرحمۃ فرماتے ہیں:’’بیع مکروہ بھی شرعاً ممنوع ہے اور اس کا کرنے والا گنہگار ہے،مگر چونکہ وجہِ ممانعت نہ نفسِ عقد میں ہے،نہ شرائطِ صحت میں،اس لیے اس کا مرتبہ فقہاء نے بیع فاسد سے کم رکھا ہے۔‘‘(بھارِ شریعت،جلد2،حصہ 11،صفحہ722تا723، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   زکوۃ میں رقم کے علاوہ کوئی چیز دی جائے، تو اس چیز کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق زکوۃ ادا ہو گی۔  فتاوی رضویہ میں ہے: ’’زکوۃ میں روپے وغیرہ کے عوض بازار کے بھاؤ سے اس قیمت کا غلہ مکا وغیرہ محتاج کو دیکر بہ نیتِ زکوۃ مالک کر دینا جائز و کافی ہے، زکوۃ ادا ہو جائیگی، مگر جس قدر چیز محتاج کی ملک میں گئی، بازار کے بھاؤ سے جوقیمت اس کی ہے، وہی مجرا ہو گی۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 69، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   لیکن یاد رہے! یہ خیال کرتے ہوئے کہ زکوۃ تو ادا ہو جائے گی، اسے زکوۃ کے طور پر نہ دیا جائے کہ یہ تو معاذ اللہ ناجائز و حرام کام کو ہلکا سمجھنے والی صورت ہے، جس کا انجام بڑا سخت ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم