Biwi Ka Shohar Ki Ijazat Ke Baghair Uski Zakat Ada Karna

 

بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر اس کی زکوٰۃ اداکرنا

مجیب:مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر: WAT-2970

تاریخ اجراء: 09صفر المظفر1446 ھ/15اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر شوہر پر زکوۃ فرض ہو اور اسے زکوۃ کی ادائیگی کا بھی بہت کہا گیا لیکن وہ زکوۃ ادا نہیں کرتا  تو  کیا اس کی بیوی اس کی رقم چھپ  کے  نکال کر اس کی طرف سے زکوۃ ادا کرسکتی ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شوہر پر زکوۃ فرض ہو  لیکن  وہ سمجھانے کے باوجود خود ادا  نہ کرے تو اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ بیوی کا اس کے مال سے زکوۃ  ادا  کرنا ہر گز درست نہیں ہے۔ بلکہ ا س کی اجازت کے بغیر ادا کرنے سے اس کی زکوۃ ادا ہی نہیں ہوگی۔

   سنن النسائی میں ہے” عن عبد الله بن عمرو، قال: لما فتح رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة قام خطيبا فقال في خطبته: لا يجوز لامرأة عطية، إلا بإذن زوجها“ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا، تو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے،اور فرمایا: کسی عورت کا اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں۔“(سنن النسائی،رقم الحدیث 2540،ج 5،ص 65، مكتب المطبوعات الإسلامية ، حلب)

   مرقاۃ المفاتیح میں ہے” ألا لا تنفق " امرأة شيئا من بيت زوجها إلا بإذن زوجها " أي صريحا أو دلالة (قيل: يا رسول الله ولا الطعام؟ قال: " ذلك ") أي الطعام " أفضل أموالنا " أي أنفسنا، وفي نسخة أموال الناس، يعني فإذا لم تجز الصدقة بما هو أقل قدرا من الطعام بغير إذن الزوج، فكيف تجوز بالطعام الذي هو أفضل“ترجمہ:خبر دار کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے  اس کی  صراحتا   یا دلالتا اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے،  عرض کی گئی اے اللہ کے رسول! کیا کھانا بھی استعمال نہ کرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کھانا ہمارےمالوں میں سے افضل مال ہے اور ایک نسخہ میں ہے کہ لوگوں کے مالوں میں سے  افضل مال ہے  یعنی جب کھانے سے کم مقدا ر والی چیز کا  شوہر کی اجازت کے بغیر  صدقہ جائز نہیں ہے تو   کھانے کا جوکہ افضل ہے ،اس  کا صدقہ کیسے جائز ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،ج 4،ص 1358،دار الفکر،بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے ”اگر  ملک غیر ہے تو اس  میں بے اجازت ِمالک تصرف ناجائز ہے ۔“(فتاوی رضویہ ، ج 16،ص 533،رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

   فتاوی  رضویہ میں ہے”دوسرے کی طرف سے کوئی فرض وواجبِ مالی ادا کرنے کے لیے اُس کی اجازت کی حاجت ہے،اگر بالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر یا اُس کی زکوٰۃ، ماں باپ نے اپنے مال سے ادا کردی یا ماں باپ کی طرف سے اولاد نے اور اصل جس پر حکم ہے اس کی اجازت نہ ہُوئی تو ادا نہ ہوگی۔“(فتاوی رضویہ،ج 10،ص 139،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم